اتوار,  05 مئی 2024ء
صوبے کے ضمنی انتخاب میں واضح کامیابی کا سہرا مریم نواز کے سر جاتا ہے

لاہور(اصغر علی مبارک)پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں کے ضمنی انتخابات میں نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

اب تک کےغیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 12 میں سے 10 نشستیں اپنے نام کی ہیں۔ دوسری جانب صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو وزیرآباد میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں بھی مسلم لیگ ن کے عدنان افضل چٹھہ نے کامیابی حاصل کی۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی گجرات سے اپنے بھتیجے موسیٰ الٰہی کے ہاتھوں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کھا گئے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان میں ہونے والےعام انتخابات 2024 میں کئی سیاسی جماعتوں کے امیدوار ایک سے زیادہ نشستوں پرکامیاب ہوئےتھے، خصوصاً بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے مخلتف شہروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

عام انتخابات کے بعد قانونی طور پر ایک سے زیادہ سیٹوں سے نو منتخب رکن کو ایک نشست رکھنا ہوتی ہے جب کہ خالی ہونے والی سیٹوں پر الیکشن کمیشن 60 روز میں ضمنی انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں بھی سب سے زیادہ نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ شہباز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے 123، این اے 132 قصور لاہور کے صوبائی حلقوں پی پی 158اور پی پی 164 سے کامیابی حاصل کی تھی انہوں نے قصور سے قومی اسمبلی کی این اے 132 اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے کامیابی کے بعد این اے 117کی نشست پاس رکھی جب کہ پی پی 149 کی نشست چھوڑ دی تھی۔ حمزہ شہباز نے این اے 118 سے ایم این اے کا حلف اٹھانے جبکہ پی پی 147 کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 159 سے کامیاب ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے والی مریم نواز نے این اے 119 کی سیٹ خالی کر دی تھی۔ مسلم لیگ ن کے سردار غلام عباس این اے 53 سے ایم این اے بن گئےتھے جب کہ پی پی 22 سے منتخب ہو کر نشست خالی چھوڑ دی تھی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال قومی اسمبلی کے حلقہ 76 اور پی پی 54 سے منتخب ہوئےتھے انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست سے حلف نہیں اٹھایا تھا اور یوں پی پی 54 کی سیٹ چھوڑ دی ۔ ن لیگی رہنما رانا تنویر نے بھی شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا وہ بھی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ چکےتھے۔ ڈیرہ غازی خان سے ن لیگی رہنما اویس خان لغاری این اے 186 سے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئےتھے۔

انہوں نے بھی رکن پنجاب اسمبلی کا حلف نہیں اٹھایا صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے تین قومی اسمبلی کی نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ وہ لاہور کے این اے 127 میں ہار گئے تھےجبکہ سندھ سے دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئےتھےان میں سے ایک نشست چھوڑ دی تھی۔ سندھ سے ہی پیپلز پارٹی کی دو نشستوں سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا پلیجو نے ایک سیٹ چھوڑ دی ۔ ق لیگ کے چودھری سالک حسین نے گجرات سے قومی اسمبلی کی نشست پاس رکھی اور صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑی دی تھی ۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ریاض فتیانہ نے بھی این اے 107 سے منتخب ہو کر رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی ۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ علی امین گنڈا پور نے ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کر دی ۔قومی اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہونے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے بھی بلوچستان اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی۔سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کی خالی کردہ آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی تین، پی ٹی آئی کی دو اور ق لیگ، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ۔

ملک بھر میں 12 سے زیادہ نشستیں ایسی تھیں جہاں ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کامیاب ہوئےسب سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں لاہور میں خالی ہوئیں جن پر ضمنی الیکشن ہوئے۔ ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے بعد سیاسی جماعتوں کی روایت رہی کہ اپنے ہارنے والے اہم رہنماؤں یا ان حلقوں میں پہلے سے موجود مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 14حلقوں میں ضمنی انتخابات میں 6 نئے اور 8 پرانے چہرے منتخب ہوئے ہیں ۔پہلی منتخب ہونے والے نئے چہروں میں نارووال سے احمد اقبال چوہدری، گجرات سےموسیٰ الٰہی، تلہ گنگ سے ملک فلک شیر، لاہور سے محمد خرم نواز لدھڑ، راشد منہاس اور وزیر آباد سے عدنان افضل چٹھہ شامل ہیں جبکہ قصور سے ملک رشید ، علی پرویز ملک، ملک ریاض ، رانا افضال حسین پہلے بھی قومی اسمبلی جبکہ شعیب صدیقی اور سعید اکبر نوانی پہلے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔

ان کے علاوہ ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان سے مسلم لیگ ن کے لغاری خاندانوں کے دونوں امیدوار بھی شامل ہیں,ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں فاتح امیدواروں کو مبارک باد پیش کی اور دعویٰ کیا کہ ’ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ بھی کہ عوام جان چکے ہیں کہ اس ملک کی ترقی کے لیے محمد نواز شریف کی قیادت ضروری ہے۔ اسی لیے عوام نے شفاف انتخاب میں مسلم لیگ ن کو بھرپور اعتماد سے نوازا ہے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ پہلی مرتبہ محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب میں بھی کوئی حکومت ہے ۔ پنجاب حکومت دستیاب وسائل کو اچھی حکمت عملی سے استعمال کرکے بہتر نتائج دینے کی کوشش کررہی ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا رمضان پیکج دیا ہے۔ مریم نواز رمضان بازاروں، جیلوں اور ہسپتالوں میں خود جا کر حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، کسانوں کے لیے کسان کارڈ جاری کرنے، نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دینے، طلبا کو آسان قسطوں پر موٹرسائیکلیں فراہم کرنے، کاشتکاروں کو سولر پینل دینے، تمام اضلاح میں غریبوں کو ماڈل گھر بنا کر دینے، صوبے میں صٖفائی کے نظام کو بہتر بنانے اور کئی نئے شہروں میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔

واضح رہے کہ مریم نواز شریف نے ہی2013ء کے نواز شریف کے دور حکومت میں یوتھ پروگرام کا منصوبہ بنایا اور اس کی سرپرست بھی رہیں۔ہیلتھ کارڈ جس کا کریڈٹ پی ٹی آئی نے اپنی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی اس کا آئیڈیا بھی مریم نواز نے پیش کیا تھا اور نواز شریف ہیلتھ کارڈ کی کامیابی کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے صوبہ پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اہم وزارتوں پر خواتین کو تعینات ہیں۔ مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ، مریم اورنگزیب سینیئر وزیر اور عظمی بخاری صوبائی وزیر اطلاعات ہیں۔ وزیراعلی پنجاب نے صائمہ فاروق کو اپنی پرسنل سیکریٹری مقرر کیا ہے۔ لاہور کی ڈپٹی کمشنر بھی ایک خاتون ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت کے کئی اہم عہدوں پر خواتین کو مقرر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کا سہرا مریم نواز کے سرہے۔ مریم نواز اس لیے کامیاب ہیں کہ مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب کا بیس کیمپ ہے، مسلم لیگ ن کی مقبولیت کو دو ہزار اٹھارہ اور دو ہزار چوبیس میں پی ٹی آئی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب وزیراعلی پنجاب کونواز شریف کی رہنمائی بھی میسر ہے، وزیر اعظم بھی مریم کے چچا ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی ان کا دھڑا موجود ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز مزید کامیاب ہوں گی۔

مریم نواز نے بطورخاتون وزیر اعلیٰ پنجاب پاکستان کے سب بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ سنبھال کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ عام انتخابات 2024 میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ایک سو 133 نشستیں حاصل کی تھیں، 23 آزاد ارکان نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی، اس طرح سے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب ارکان کی تعداد ایک سو 160کا ہندسہ پار کر گئی ہے جس نے سیاسی مخالف پارٹی کے اوچھے ہتھکنڈوں کو بھی ناکام بنا دیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ مریم نواز نے کئی سالوں میں نمایاں مقام حاصل کیا اور مختلف شعبوں میں نام کما کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ وہ مشکل وقت میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور بھرپور جدوجہد کی ۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کی سازش کی جا رہی تھی اور سیاسی مخالفت کا مقابلہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

عمران خان دور میں انہوں نے عدالتی کارروائیوں اور نیب کے مقدمات کا والد کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا اور بہادری سے مہم چلائی ۔ جب بولنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا،تب مریم نواز کی مزاحمتی سیاست اور جارحانہ تقاریر نے مسلم لیگ (ن) کےکارکنان کو گرما یابلکہ دوبارہ میدان میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی سیاست کے باعث ہی طاقتور حلقوں نے ن لیگ کے ساتھ بات چیت شروع کی۔بلاشبہ نواز شریف کے بعد مریم نواز کو ن لیگ میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔مریم نواز اپنی جارحانہ سیاست کی وجہ سے منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد وسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نوازکو عام انتخابات 2013 کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا گیا تھا۔ 22 نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کاچیئرپرسن تعینات کیا گیا تھا تاہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے 13 نومبر 2014ء کو استعفیٰ دے دیاتھا۔ 6 جولائی 2018ء کو عدالت نے نواز شریف کیساتھ انہیں بھی 7 سال قید اورجرمانے کی سزا سنائی اور وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل رہیں۔ مریم نواز کو لندن سے وطن واپسی پر گرفتار کر کے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھااور وہ 69 دن تک جیل میں رہیں تاہم بعد میںان کی تمام سزائیں معطل کردی گئیں ۔ مریم نواز کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سیکھنے پریقین رکھتی ہے۔

انہوں نے خود کو کبھی برتر نہیں سمجھا۔ مریم نواز قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی عدم موجودگی میں عملی طور پر خود کو منوا چکی ہے انہوں نے جس طرح قائد مسلم لیگ ن کے بیانیے’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،مسلم لیگ کو دوبارہ عوام کے دلوں میں زندہ کیا۔انہی کی مضبوط سیاسی شخصیت کا ہی خاصہ ہے۔مریم نواز نہ ڈری،نہ جھکی بلکہ ڈٹی رہیں اور اپنے معصم ارداے کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں، مریم نوازکواپنی وزارت اعلیٰ کے دوران متعدد چیلنجز کا سامنا ہےجس میں مہنگائی,خراب معیشت جسے چیلنجز ان کے سامنے ہیں۔ ۔انشاء اللہ وہ اپنی خدادصلاحیتوں کے بل بوتے پر ان مشکلات کے پل کو بھی عبور کر لیں گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب میں نواز شریف نے تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھی تھی اور بعدازاں بعدازاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی گڈ گوررننس نے اسے چار چاند لگا دئیے آج مریم نواز کے فولادی حوصلوں نے ثابت کر دیا کہ عورت اگرڈٹ جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی پنجاب میں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کا سہرا بلاشبہ وزیر اعلی مریم نواز کی طرز حکومت کے سرجاتا ہے۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News