هفته,  18 مئی 2024ء
گندم بحران،کسان پریشان،نومنتخب حکومت کاامتحان؟

تحریر:اصغر علی مبارک

ملک میں گندم کی فصل پک کر بالکل تیار ہے، صوبائی حکومتوں کی جانب سے فی من قیمت بھی مقرر کردی گئی ہے تاہم حکومتوں نے کسانوں سے خریداری شروع نہیں کی گندم کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ریٹ سے بھی کم قیمت پر گندم فروخت ہونے لگی ہے جس سے کسان پریشان اورسراپا احتجاج ہیں۔گندم اسکینڈل بحران نومنتخب حکومت کے خلاف ایک سازش ہے ، یہ بحرانی منصوبہ حکومت کو ناکام کرنے کا پری پلان لگتا ہے کسانوں کااحتجاج اس موقع پرہورہا ہے جب وزیر اعظم پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو معیشت کو فروغ دینے اور معاشی بحران کو کم کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گندم اسکینڈل نو منتخب ایم ایل این حکومت کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے نگرا ن دور حکومت میں غیر ضروری خریدی گئی گندم کی تحقیقات کرانے کی منظوری دیدی ہے۔ نگران دورحکومت میں گندم کی درآمد کی تحقیقات سے ان حالات و عوامل کا پتہ چلانے میں مدد ملے گی جو بیرون ملک گندم منگوانے کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور ملکی گندم کی فروخت کے مسائل کا سبب بنےہیں۔ یہ عوامی مطالبہ ہے کہ گندم اسکینڈل کے ذمے داروں کو قوم کے سامنے لایا جائے اسکینڈل میں ملوث افراد کو سزا ضرورملنی چاہیے ماضی میں ہراسکینڈل میں انکوائری کمیشن نے تمام افراد کو کلین چٹ دی اور کسی ایک بھی ملوث شخص کو کسی اسکینڈ ل میں سزا نہیں دی ۔

زراعت دشمن فیصلوں میں کسان پس کر رہ گئے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے جس کے سربراہ جسٹس (ر) میاں مشتاق مقرر کئے گئے ہیں۔ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن میاں مشتاق گندم خریداری کی تحقیقات مکمل کرکے وزیراعظم کو رپورٹ پیش کریں گے۔میاں مشتاق کی ایف پی ایس سی میں 13مہینے سروس باقی رہتی ہے، 15کامن سے تعلق رکھنے والے میاں مشتاق پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس گریڈ 22کے ریٹائرڈ افسر ہیں تحقیقاتی کمیٹی نگران حکومت کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے اسباب و علل کا جائزہ لینے اور دو ہفتے میں وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہے۔ دوسری جانب گندم درآمد کے اس عمل کے حوالے سے انکشافات سامنے آنے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی تجاویز نظرانداز کردی گئیں اور نجی شعبے کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی سے بھی چھوٹ مل گئی ۔ اس عمل سے قومی خزانے کو 300ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ یہ بات ا ہم ہےکہ اس بار ملک میں گندم کی شاندار فصل ہوئی ہے۔ اس کے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جانے چاہئیں تھے جبکہ باردانہ کی فراہمی سمیت کسانوں کو وہ تمام سہولتیں دی جاتیں جن سے غیرمعمولی منافع حاصل کرنے کی امیدیں پوری ہوتی ہیں۔ مگر متعلقہ وزارت کی مخالفت کے باوجود یوکرین سے گندم امپورٹ کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی جو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرلی گئی تھی۔

مذکورہ خریداری اور درآمد زرمبادلہ کی فراہمی سمیت کئی معاملات پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں تھی جبکہ ڈالروں کا بندوبست بھی ہوگیا تھا اور دوسری راہیں بھی ہموار ہوگئی تھیں۔ یہ سب باتیں تحقیقات طلب طلب ہیں۔ ان کے بارے میں تحقیقات ہونا ضروری ہیں اور یہ تحقیقات ہونی چاہئے کہ نگران کابینہ کو گندم امپورٹ کے اثرات سے کن لوگوں نے لاعلم رکھا تھا ۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی ایک سمری کے مطابق ملک میں 28اعشاریہ 18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی اور 2.45ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80 کے بجائے 5.87 ٹن گندم خرید سکے۔

اس وقت گندم کی سرکاری خریداری شروع نہ کئے جانے کے خلاف کسانوں کے مظاہرے جاری ہیں ، گرفتاریاں اور لاٹھی چارج کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کسان منتظر ہیں کہ گندم خریداری مہم شروع ہو جبکہ آڑھتی کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان سے سستے داموں گندم خرید رہے ہیں ۔ کسانوں کو شکایت ہے کہ حکومت گندم خرید نہیں رہی اور مارکیٹ میں آڑھتی من پسند نرخ لگا کر کسان کا استحصال کررہا ہے۔ کسان مطالبہ کررہےہیں کہ مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے ان کا پرسان حال کیا جائے۔پاکستان کسان اتحاد کے مطابق گندم کے کاشتکاروں کو انکی لاگت بھی وصول نہیں ہورہی ہے۔ سرکاری قیمت سے ایک ہزار روپے فی من کم قیمت پر گندم خریدی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں کسان اس قابل نہیں رہے کہ آئندہ فصلوں کپاس اور چاول کے لئے ضروری لوازمات خرید سکیں۔

دوسری جانب کسانوں نےمطالبہ کیا ہےکہ گندم کا سرکاری نرخ 5 ہزار روپے مقرر کیا جائے۔موجودہ گندم بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق نگران حکومت نے گندم کی کٹائی سے چند ہفتے قبل درآمدی گندم سے سرکاری گودام بھردئیے جسکے باعث نئے اسٹوریج کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کسان پریشان ہیں، انکی معیشت کا بیشتر انحصار گندم کی فصل پر ہے۔ حکومت نے گند م کی خریداری کے جونرخ مقرر کئے تھے وہ انہیں حاصل نہیں ہورہے۔ باردانہ نہیں مل رہا۔

گندم فروخت نہیں ہوپارہی۔ یہ کیفیت اذیت ناک ہے۔ حکومت کو گندم کی خریداری کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگلی فصل پر گندم کی بوائی کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ بتایا گیا ہےگندم کا وافر سٹاک موجود ہونے کے باوجود نئی حکومت کے دور میں بھی لاکھوں ٹن گندم امپورٹ ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے، ن لیگ کی موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی چند ہفتوں میں تقریباً 100 ارب روپے کی لاکھوں ٹن گندم امپورٹ کی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق موجودہ وفاقی حکومت کے دور میں بھی لاکھوں ٹن گندم امپورٹ کی گئی۔ نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب 51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کی گئی۔ ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ 13 ہزار سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجود گندم درآمد کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو بھی گندم کی درآمد کے حوالے سے لاعلم رکھا گیا، وزیراعظم نے لاعلم رکھنے پر سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی کو عہدے سے ہٹایا۔ ذرائع کے مطابق گندم کی درآمد نگران حکومت کے فیصلے کے تحت موجودہ حکومت میں بھی جاری رکھی گئی، وزارت خزانہ نے نجی شعبے کے ذریعے 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر گندم سکینڈل کی تحقیقات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے وزیر اعظم آفس کوبتایا نگران دور میں وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبے کو مقررہ حد کے بجائے کھلی چھوٹ دی گئی اور گندم کے ٹریڈرز کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی چھو ٹ بھی دی گئی۔ نگران کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت فوڈ سکیورٹی نے سمری ارسال کی، وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی تجاویز کو نظرانداز کیا۔منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد ہوئی جس سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، یاد رہےکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے گندم کے معاملے پر نگران حکومت کو غلط فیصلوں کا ذمہ دار قراردیاہ ے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نگران حکومت گندم کی درآمد کے غلط فیصلے کرکے گئی جس کے باعث آج کسان پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ تھا اس سال گندم وافر ہوگی اداروں کے پاس اعداد وشمار تھے لیکن 1 ارب ڈالرکی گندم منگوالی گئی حالانکہ ملک میں وافرگندم موجود تھی، جس نے یہ فیصلے کیے اسے سزا ملنی چاہیے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پاسکو کا خریداری کا ہدف بڑھا دیا ہے، صوبوں کو بھی کسانوں سے بات چیت کرنی چاہئے یہ سوالات لوگ اٹھاتے ہیں کہ آخر یہ گندم کا بحران کیسے پیدا ہوا ؟ اس بحران کی ذمہ دار کیا صوبائی حکومتیں ہیں یا وفاقی حکومت ہے گندم کے اس بحران میں نگران حکومت کا کیا کردار ہے؟ مارکیٹ کیسے کسان کا استحصال کررہی ہے؟ اور سب سے اہم کہ اس بحران سے کیسے حکومت کسانوں کو نکال سکتی ہے اور کیسے ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے یاد رہے کہ گندم کے بحران کی وجہ یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے ادارے پاسکو نے اس سال گندم کی خریداری کا ٹارگٹ پچھلے سالوں کی نسبت کم کردیا تھا۔ پچھلے سال پنجاب حکومت کا صوبے بھر سے گندم خریدنے کا ٹارگٹ 4 کروڑ 50 لاکھ سوکلووالی بوری تھا۔ اسی طرح پاسکو کا ٹارگٹ ایک کروڑ 89 لاکھ بوری گندم مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ٹارگٹ تمام اعداد و شمار بشمول حالیہ اسٹاک اور ملکی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مقرر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال امید یہ کی جارہی تھی کہ شاید گندم کی بمپر کراپ ہوگی اور پیداوار ضرورت سے کافی زیادہ ہوگی۔ پنجاب حکومت نے اس سال پچھلے سال کے برابر گندم خریدنے کے بجائے اس سال ٹارگٹ تقریباً 4 گنا کم کردیا اور تمام متعلقہ ضلعی اداروں کو صوبے بھر سے صرف 90 لاکھ بوری خریدنے کا ٹارگٹ دیا۔

کہاں ساڑھے 4 کروڑ بوری اور کہاں 90 لاکھ، صرف پنجاب حکومت نے ہی نہیں بلکہ باقی صوبائی حکومتوں اور پاسکو نے بھی اپنے ٹارگٹ کم کردیے۔ سرکاری حکام کے مطابق پاسکو کا اس سال گندم خریدنے کا ٹارگٹ ایک کروڑ 40 لاکھ بوری مقرر کیا گیا ۔ جب تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے گندم خریدنے کا ٹارگٹ کم کیا تو اس سے مارکیٹ اور آڑھتی کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ اپنی من پسند کے نرخ لگا کر کسان سے گندم خریدے۔ کیونکہ گندم ہو یا کوئی اور اجناس ان کی قیمتوں کا تعلق بہت حد تک ڈیمانڈ اور سپلائی سے ہوتا ہے۔ جب ڈیمانڈ کم اور سپلائی زیادہ ہو تو زرعی اجناس کی قیمت خود بخود کم ہوجاتی ہے۔ مارکیٹ کے اسی اصول کے تحت اس وقت گندم کی فی من قیمت حکومتی نرخ سے کافی کم ہے۔ گندم کا ٹارگٹ اس سال کیوں کم کیا گیا تھا اور سرکاری نرخ کیوں نیچے آیا اور کیا اس بحران کی ذمہ داری کسی حد تک نگراں حکومت پر بھی لاگو ہوتی ہے نگران حکومت نے اپنے دور میں گندم درآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس وقت بھی امپورٹڈ گندم پاکستان کی بندرگاہ پر موجود ہے۔ اس امپورٹ کے فیصلے کے براہِ راست متاثرین میں کسان سرفہرست ہے۔ کیونکہ حکومت نے سیزن کے قریب ہی باہر سے گندم منگوا لی، اب اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سال کسانوں سے گندم کم خریدی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتوں نے اس سال گندم خریداری کے ٹارگٹ کم کردیے۔ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت کم مقرر کی تھی کیونکہ انہیں باہر سے کم قیمت پر گندم مل رہی تھی اور آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ وافر مقدار میں گندم کے اسٹاک مہیا ہونے کی وجہ سے اس سال زیادہ گندم نہ خریدی جائے اور زیادہ پیسا اس میں پارک نہ کیا جائے۔ افغانستان کے بارڈر بند ہونے کی وجہ سے گندم کسی دوسرے ملک برآمد بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کو پاکستان کی نسبت سستے داموں گندم دستیاب ہے۔

اس لیےگندم کے نئے سرکاری نرخ جاری کیے گئے۔ اس سب کے باوجود کیا کسانوں کے ان مسائل اور گندم کے بحران کا سدباب کیا جاسکتا ہے حل یہ ہوسکتا ہےکہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فی الفور گندم خریداری کا ٹارگٹ بڑھا دیں۔ اس سے مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال ختم ہوجائےگی۔ ڈیمانڈ بڑھنے سے مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں استحکام آئے گا اور اس سے خود بخود گندم کے نرخ بہتر ہوں گے اور کسانوں کا استحصال بھی ختم ہوگا۔ ملک میں گندم بحران ختم کرنا ہےتو حکومت کو کسانوں کے لیے کچھ کرنا ہے اس لیے فوری طور پر ٹارگٹ بڑھا کر مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال ختم کرناچاہیے ۔ ورنہ اگلے سال کسان گندم اگائیں گے اور پیداوار کم ہونے کی وجہ سےپھر گندم کا بحران پیدا ہو جائےگا۔ جسے نو منتخب حکومت برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News