اتوار,  05 مئی 2024ء
ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا بیانیہ بری طرح مسترد

تحریر:اصغرعلی مبارک

ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا بیانیہ بری طرح مسترد ہوا، ضمنی انتخابات میں لیگی امیدواروں کی جیت عوام کے اعتماد کا مظہر ہے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے 8 فروری کے انتخابات پر شک و شبہات کے بیانیہ کاخاتمہ کردیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 21 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کامیاب قرار پائی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات پر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نےاپنی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے حلقوں میں جیت کے مارجن میں اضافہ دیکھا کیا گیا۔ ووٹوں کی گنتی سمیت انتخابی عمل بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھا تاہم چند ایک حلقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 8 فروری کے جنرل الیکشن کی نسبت تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔ لاہور میں تو ووٹر ٹرن آوٹ واضح طور پر کم ہوا، گجرات، خضدار اور قلعہ عبداللہ میں ووٹرن آوٹ میں شرح بلند ہوئی،گنتی سے خارج ووٹوں کی تعداد بھی آدھی ہوگئی۔

فافن نے بتایا کہ نتائج کی شفافیت اور بیلٹ پیپرز کے اجرا کے عمل میں بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات بھی مشاہدے میں آئے۔ جائزہ رپورٹ میں کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح تقریباً 36 فیصد رہی، جو 8 فروری کے انتخابات کے مقابلے میں کم تھی، خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح میں 12 فیصد اور مردوں کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 75 ہزار 640 کا اضافہ ہوا، 8 فروری کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں 72 ہزار 472 ووٹ گنتی سے خارج ہوئے تھے اور ضمنی انتخابات میں 35 ہزار 574 ووٹ خارج ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر کے علاوہ جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران اپنی جیتی گئی نشستیں برقرار رکھیں، ان دو حلقوں میں 8 فروری کو بالترتیب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اور دیگر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ ضمنی انتخابات کی شفافیت پر بتایا گیا کہ پولنگ کا عملہ، پولنگ اسٹیشنز کا قیام، ووٹرز کی شناخت، بیلٹ پیپرز کا اجرا اور ووٹوں کی گنتی، بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھی۔ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، مخصوص اضلاع میں موبائل فون سروس کی عارضی معطلی اور تشدد کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے.

ناررووال کے ایک پولنگ سٹیشن کے باہر تصادم کے نتیجےمیں مسلم لیگ ن کا ایک حامی جان سے گیا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پر حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے شفافیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے، کیونکہ مسلم لیگ سمیت تمام حکومتی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں نے ضمنی انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے.

جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ عام انتخابات بھی شفاف تھے۔ یہ نشستیں جن جماعتوں نے جیت کر خالی کی تھیں وہ واپس جیت لی گئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔ وزیراعظم آفس کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ ’ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے والے عوام کا تہہ دِل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو کارکردگی کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ ’عوام نے پروپیگنڈہ اور جھوٹ کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ نواز شریف پر اعتماد ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مسلم لیگ ن کو دن رات ایک کرتے دیکھ کر لوگوں نے ضمنی الیکشن میں دوبارہ ووٹ دیا، تحریک انصاف ختم ہو چکی اور دھاندلی کا رونا شروع ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ضمنی الیکشن کے نتائج کے حوالے سے یہ کہنا کہ حکومتیں جیت جاتی ہیں یہ بات ٹھیک نہیں۔ جب بانی پی ٹی آئی حکومت میں تھے تو ضمنی الیکشن ہار گئے تھے۔‘ پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے ضمنی الیکشن کو ’نو فروری کے نتائج کا ری پلے‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے دھاندلی کے خلاف جمعے کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے جبکہ انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بھی تیاری جا رہی ہےانہوں نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں ہمارے دو امیدوار ہار گئے کیونکہ وہاں ہم نے دھاندلی نہیں کی,سیاسی جماعتوں کے بیانات تو ایک طرف لیکن تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا بیانیہ بری طرح مسترد ہوا پی ٹی آئی کی شکست میں قیادت کے فقدان کا پہلو واضح رہا ہے۔جہاں بھی حکومتی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں وہ نشستیں پہلے سے ہی ان ہی جماعتوں نے جیتی تھیں۔ پی ٹی آئی کی شکست میں سب سے بڑی وجہ وہ خود ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے کی طرح ضمنی الیکشن میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعات کھڑے کروا لیے۔ لاہور میں حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے میں ٹکٹ نہ ملنے پر محمد مدنی آزاد الیکشن لڑے۔

اسی طرح این اے 119 میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شہزاد فاروق کو دوبارہ ٹکٹ دینے پر کئی مقامی رہنماؤں کے تحفظات تھے۔ ایسے ہی پنجاب کے کئی حلقوں میں یہ مسائل دیکھے گئے۔عام انتخابات کی طرح ضمنی میں بھی قیادت کا فقدان رہا۔ کہیں متحرک مہم دکھائی دی، نہ ہی کوئی اہم رہنما کسی حلقے میں ووٹرز کو متحرک کرتا دکھائی دیا۔ مرکزی قیادت کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے بھی ووٹرز مایوس ہوئے۔ امیدوار اپنے طور پر ہی مہم چلاتے رہے۔

اس کے علاوہ اس بار عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر مسلم لیگ ن کا ووٹر زیادہ نکلا جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹر مایوسی کی وجہ سے زیادہ نہیں نکلا,ان انتخابات میں پھر موبائل فون اور انٹر نیٹ سروس سے بھی پی ٹی آئی اپنے ووٹرز کو نہ پُرجوش کر سکی، نہ پولنگ سٹیشنز تک لانے میں کامیاب رہی۔عام انتخابات کے بعد جس طرح دھاندلی کا شور مچا اس تناظر میں یہ ضمنی الیکشن سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے بیانئے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ ضمنی انتخابات میں عوام نے موجودہ حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہےمسلم لیگ (ن) کی قومی، صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پرفتح اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام پرامید ہیں کہ بہت جلد معاشی استحکام آئے گا۔ وزیرِ اعظم اپنی ٹیم کے ہمراہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہیں ،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ضمنی انتخابات کو ایک بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے موجودہ ضمنی الیکشنز میں اگرچہ خاموشی ضرور تھی تاہم نتائج مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیے کی تائید یا تردید ضرور کریں گے۔

عام انتخابات سے اگرچہ دو ہفتے قبل ن لیگ کی جانب سے جلسوں کے آغاز کے بعد کچھ ہلچل شروع ہو گئی تھی، تاہم ان ضمنی انتخابات میں تو حکمران جماعت بھی مکمل طور پر خاموش دکھائی دی۔نہ تو حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور نہ ہی اپوزیشن میں بیٹھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گراؤنڈ یا سوشل میڈیا پر کسی قسم کی انتخابی مہم نظر آئی۔ خیال رہے کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی الیکشن مہم زیادہ تر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے چلائی تھی اور انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے میں کامیاب رہی،سیاسی میدان میں پارٹیوں کو نشیب و فراز سے گزرنا ہی ہوتا ہے، مقبولیت میں کمی یا زیادتی اس سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ موجودہ ضمنی انتخابات سے مسلم لیگ ن کے ورکرز میں کچھ توانائی آئی ہے۔ تحریک انصاف کا ورکر کچھ رنجیدہ ہوا ہے اور وہ ووٹ دینے بھی نہیں نکلا۔

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کو جو ریئلٹی چیک ملا تھا، اس سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا، اپنی طاقت کو مجتمع کیا اور الیکشن والے دن بھی اپنے ووٹر کو نکالا ہے ان نتائج سے مسلم لیگ ن شاید اپنی کچھ سیاسی قوت واپس لے لےضمنی انتخابات میں ن لیگ نے نہ صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر دوبارہ کامیابی سمیٹی بلکہ وزیرآباد سے صوبائی نشست جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار نے جیتی تھی، وہ بھی اب ن لیگ کے پاس آ گئی ہےان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ضمنی انتخابات میں پاکستان بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 23 حلقوں میں 239 امیدوار مد مقابل تھے۔ ان انتخابات میں کل 239 امیدواروں نے 50 خالی ہونے والی نشستوں کے لیے مقابلہ کیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری پہلے ہی این اے 207 سے بلامقابلہ منتخب ہو چکی ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی خالی نشستوں کے لیے کل 23 امیدوار تھے جب کہ پنجاب میں 154 امیدوار اپنی قسمت آزما رہےتھے۔ سندھ میں زبیر احمد جونیجو نے پی ایس۔80 سے بلامقابلہ اپنی نشست حاصل کی۔ بلوچستان اسمبلی کی خالی نشستوں کے لیے 12 امیدوار میدان میں تھے 13 مارچ کو الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا تھا۔ ان میں قومی اسمبلی کی چھ، پنجاب اسمبلی کی 12 خیبرپختونخوا اسمبلی کی دو ، سندھ اسمبلی کی ایک اور بلوچستان اسمبلی کی دو نشستیں بھی شامل تھیں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News