سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
میں شرمندہ ہوں میرے خدا، میں نا امید ہوں ،مایوس ہو چکا ہوں ،
اب شاید میں تجھ سے پہلے جیسی محبت نہ کر سکوں گا
دل بہت بوجھل ہے ۔ روح بے چین ہے ، برباد ہے ۔
اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہمارے آبا و اجداد اور مذہبی رہنما ؟جو بچپن سے یہ خوش کن خیالات ہمارے ذہنوں میں ڈالتے رہے کہ
کوئی ہے جو ہماری تقدیریں لکھتا ہے
جو ہماری مٹی کی مورتیں بنا کے ان میں روح پھونکتا ہے۔
اللہ جو نیکیوں کا صلہ دے گا اور برائیوں کی سزا ۔
ہمارے ننھے منے معصوم ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی کہ تو دعائیں سنتا ہے اور ان کا جواب بھی دیتا ہے اور اپنی الہامی کتاب میں بھی تو نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور تو نے یہ بھی کہا کہ تجھے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ
لیکن سب سے خطرناک اور تکلیف دہ بات انسانیت کو یہ بتانا تھا کہ خدا 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔
لیکن دیکھتا ہوں کہ سات سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر کے اسے قتل کر دیا گیا تو تو کیسے برداشت کر لیتا ہے ؟جبکہ ایک ماں کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے اپنی بچی کی بے حرمتی زدہ لاش دیکھ کر۔ تجھے کیوں طیش نہیں آتا جب کسی گاؤں میں کوئی طاقتور وڈیرا یا جاگیردار کسی غریب عورت کو برہنہ کر کے گلیوں میں پھراتا ہے اور پھر اس پر کتے چھوڑ دیتا ہے اس وقت تیری رحمت کہاں سو رہی ہوتی ہے ؟
بہت تکلیف دہ صورتحال ہو گئی ہے ۔لوگ تجھ سے دور ہو رہے ہیں ،شاید بہت سے اس بات کا اظہار، خوف کے باعث نہ کر سکیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ لوگ تیرے وجود کے بارے میں سوال کرنے لگے ہیں ۔
جب میں دیکھتا ہوں غزہ اور رفاہ پر اسرائیلی طیارے بمباری کرتے ہیں لائن میں کھڑے ہوئے وہ لوگ جو بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور کھانے کے انتظار میں کھڑے ہوں ان پر بم گرتا ہے اور ان کے چیتھڑے ہواؤں میں اڑ جاتے ہیں۔ تو تو وہاں کہیں نظر نہیں آتا ۔
ہمیں جو الہامی کتابوں میں قصے سنائے گئے کہ کس طرح ابرہہ کے لشکر پر ابابیلوں نے حملہ کر کے انہیں نیست و نابود کر دیا ۔کس طرح جنگ بدر میں فرشتوں نے آ کر مومنین کے ساتھ مل کر کفار کو شکست دی ۔
اب ہمیں غیبی امداد کہیں نظر نہیں آتی۔
تو کیا وہ صرف کہانیاں تھیں ؟اگر تو ہے ۔تیرا وجود ہے اور تیرے پاس طاقت ہے تو کیوں نہیں اپنے اقوال کے مطابق مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ؟
خانہ کعبہ، مسجد نبوی میں اور جمعہ کے اجتماعات میں سینکڑوں سالوں سے مسلمان تجھ سے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
کہاں گئے وہ تیرے وعدے جن میں کہا گیا تھا کہ تم ہی سرخرو رہو گے اور اسلام غالب رہے گا۔
آج کے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ تیرا محبوب مذہب تباہی کے دہانے پر ہے ۔ہر مسلمان ملک کو کھنڈر بنا دیا جاتا ہے لیکن تیری طرف سے کوئی فرشتوں کی فوج نازل نہیں ہو رہی ۔
جب غزہ کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ہاتھ اور پاؤں بمباری سے کٹ جاتے ہیں اور وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں اور ان کی مائیں بہنیں آہ و بقا کرتے ہیں تو کیوں نہیں ان کی چیخیں، آسمانوں تک پہنچتیں ؟
کسی گنہگار، کسی نیکو کار، کسی پرہیزگار کی دعا یا چیخ و پکار تیری سماعتوں سے نہیں ٹکرا رہی۔ تو تو 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے نا ۔
تو کیوں نہیں آسمان سے عذاب نازل کرتا ظالموں کے اوپر؟ رحمت خداوندی دکھانے کے لیے کس وقت کا انتظار ہے تجھے؟
سب ختم ہو جائے گا
تمام مسلمان ممالک تباہ و برباد کر دیے جائیں گے مسلمان یا تو مٹ جائیں گے یا غلامی کی زندگی بسر کریں گے۔
لیکن تجھے کیا؟ تجھے تو اتنی وسیع کائنات میں اور بھی کام ہوں گے ۔نہ جانے کتنی دنیائیں،کتنے سیارے، کتنے کائناتیں تیرے رد عمل کی منتظر رہتی ہیں ہر لمحہ۔ تو کیوں چاہتا ہے کہ لوگوں کا تجھ سے اعتبار اٹھ جائے؟ میں آج مسجد میں داخل ہوا تو چار بزرگ گول دائرے کھڑے میں ایک نوجوان کو سمجھا رہے تھے جو کہ مایوسی کے عالم میں گردن جھکائے کھڑا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ یہ اللہ کا امتحان ہے۔
ہمارے لیے صبر کا موقع ہے۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔ میں ان کے پاس سے گزرتے ہوئے بس اتنا ہی سن چکا ہے لیکن میں سچ بتاؤں تو مجھے اب ایسے کلمات سن کر اوازاری ہوتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ساری عمر دعائیں کرتے رہیں، تیری رحمت کا انتظار کرتے رہیں! حج اور عمرے کر کے دعائیں مانگتے رہیں لیکن نتیجہ ؟
نتیجہ یہی کہ
کوئی بھگوان درشن نہیں دیتا
کوئی خدا نظر نہیں آتا
میں تجھے دنیاوی معاملات میں ڈھونڈتا ہوں ،سماجی رویوں میں ،معاشرتی مسائل میں تجھے تلاش کرتا ہوں۔ میں تجھے باد لوں، آسمانوں، سورج، چاند اور پرندوں میں نہیں دیکھنا چاہتا ۔
میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں کہ جہاں کہیں ظلم ہو تو ظالم کو روکنے کے لیے بھی تو کسی کو کھڑا کرے۔
میں چاہتا ہوں کوئی اچھا کام کرے تو تو اسے جزا دے صرف روز محشر اور قیامت والے دن انعام کا وعدہ نہ کرے۔
میری خواہش ہے کہ اگر کوئی برائی کا ارتکاب کرے تو دنیا دیکھے کہ اسے سزا ملی ہے۔
میں ایسا خدا چاہتا ہوں جس کی جزا و سزا مجھے نظر آتی ہو۔
جو صرف انعام و اکرام اور سزاؤں کا وعدہ روز محشر کے لیے نہ رکھ چھوڑے
اور سنو ! میرے آٹھ سالہ بچے نے مجھ سے پوچھا کہ بابا اللہ ہے؟
میں نے کہا ہاں ہے
کہنے لگا وہ سب سے طاقتور ہے ؟
میں نے کہا ہاں دنیا میں سب سے طاقتور ہے
تو کہنے لگا پھر وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر بمباری کرتے ہوئے کیوں نہیں روکتا۔ میں نے اس کا ایمان مجروح کرنا مناسب نہ سمجھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچوں کو اگر خدا سے امید نہ ہوگی تو پھر اتنی لمبی زندگی کیسے گزاریں گے۔بہرحال تیرا وجود اور تجھ سے امید ہی ایک سہارا ہے
میں نے بچے سے کہا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں پر حملے کرتا ہے تو یہ مسلمان ممالک کا کام ہے کہ اسرائیل پر حملہ کریں۔ اس کا ہاتھ روکیں۔ خدا کا کام نہیں ہے کہ وہ میدان جنگ میں آ کے لڑے
تو اس نے ایک اور معصومانہ سوال کر دیا، تو پھر خدا کسی کو کیوں نہیں بھیجتا ؟
خدا کو انسان سے محبت نہیں ہے کیا؟ خدا 70 ماؤں سے زیادہ پیار نہیں کرتا ؟
اب اس کا جواب آپ ہی اس کو دینا ۔
تو رب العالمین ہے ہم سب کو رزق دینے والا ہے مسلمانوں کو نہیں تمام مذاہب کے لوگوں کو پالنے والا ہے، چرند پرند،آبی حیات کا خدا ہے۔
لیکن میرا دل تیرے وجود کی گواہی نہیں دیتا جب میں دیکھتا ہوں کہ لاکھوں لوگ دنیا میں صرف بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں تجھ کو کیا احساس کہ بھوک کتنی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ ایک دروازے سے غریبی داخل ہو تو دوسرے دروازے سے ایمان رخصت ہو جاتا ہے۔ لیکن تو کیا جانے بھوک کی تکلیف، تیرا تو پیٹ ہی نہیں۔
سوشل میڈیا پر گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو دیکھی جس کے بعد تیرے پہ رونا آیا ۔
میں ویڈیو میں دیکھتا ہوں کہ افریقہ کے کسی گاؤں میں چند لوگوں نے ایک غریب کو ہاتھ پاؤں سے باندھ کر ایک بڑے ڈنڈے میں پرویا ہے اور دونوں کونوں سے دو لوگ ڈنڈے کو سہارا دے کر آگ کے اوپر اس شخص کو جلا رہے ہیں اور اس کو آگ کے اوپر گھماتے ہیں
وہ شخص چیختا ہے، روتا ہے ،دنیا کو مدد کے لیے پکارتا ہے ،پھر تیری طرف دیکھ کر مدد طلب کرتا ہے ۔
وہ لوگ اس جوان کو باربی کیو کی طرح آگ پر جلا رہے ہیں
جب میں نے تجھے وہاں بھی نہ پایا تب میں سمجھا کہ
70 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی بات تو محض افواہ تھی
کوئی بھگوان درشن نہیں دیتا /کہیں خدا نظر نہیں آتا