چینی بحران: پیداوار، برآمد اور درآمد کی غیرمنصفانہ پالیسیاں

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ ایک تاریخی، معاشی اور انتظامی تسلسل ہے۔ چینی کے معاملے میں بھی یہ اتار چڑھاؤ وقتاً فوقتاً عوامی تکلیف، حکومتی بےبسی، کرپشن اور مخصوص طبقوں کے منافع اندوز مفادات کی عکاسی کرتا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جب چینی کی قیمت فی کلو 180 روپے سے تجاوز کر چکی ہے پاکستانی عوام کا سوال یہ ہے کہ آخر کب اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے گا؟

ماضی میں کئی مواقع پر ملک کو چینی کے سنگین بحران کا سامنا رہا۔ کبھی قدرتی آفات کے باعث گنے کی فصل متاثر ہوئی تو کبھی منصوبہ بندی کی ناکامی کے سبب چینی کی پیداوار کم رہی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ذخیرہ اندوزی کو فروغ ملا بلکہ چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔

شوگر ملز مالکان اور تجارتی حلقے اس بحران کو اپنے مالی مفاد میں بدلنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب چینی کے ذخائر میں کمی آئی، تو مصنوعی قلت پیدا کر کے نرخ بڑھائے گئے، اور جب ذخائر زیادہ ہوئے تو اسے “غیر ضروری و اضافی” قرار دے کر برآمد کی اجازت حاصل کی گئی۔

سال 2023 کے اختتام پر وفاقی حکومت نے ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔ دلیل یہ دی گئی کہ مقامی ضرورت سے زائد چینی اسٹاک میں موجود ہے۔ لیکن 2024 کے وسط میں اچانک پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ حکومت نے اس فیصلے کو عوامی سہولت اور قیمتوں میں استحکام کا نام دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ صرف چند ماہ کے وقفے میں ایسا کیا بدل گیا کہ پہلے چینی اضافی تھی اور اب ناکافی کیوں ہے؟

زرعی اجناس کی قیمتوں اور تجارت پر حکومت نے “ڈی ریگولیشن” کی پالیسی اپنائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مارکیٹ فورسز اب قیمتوں اور درآمدات و برآمدات کا تعین کریں گی۔ حکومت کا کردار محض ایک “نگران” جیسا رہ گیا ہے۔ لیکن جب چینی جیسے عوامی ضرورت کی قیمت عوامی قوت خرید سے باہر نکلتی جا رہی ہو، تو صرف مارکیٹ فورسز پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں بلکہ غفلت ہے۔

حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ چینی کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی گئی۔ مگر یہ بات اپنی جگہ تشویش ناک ہے کہ حکومت نے دسمبر 2024 سے فروری 2025 کے دوران یہ شرط رکھی تھی کہ اگر چینی کی ریٹیل قیمت 145 روپے 15 پیسے سے زائد ہو جائے تو برآمد روک دی جائے گی۔ اس کے باوجود، چینی کی برآمد بھی جاری رہی اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں انتظامی کمزوری اور تجارتی دباؤ کی ایک واضح مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔ ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں چینی کی قیمت میں 3 روپے 77 پیسے فی کلو اضافہ ہوا؛ موجودہ اوسط قیمت 180.93 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے؛ ایک سال پہلے یہی قیمت 143.38 روپے فی کلو تھی؛ سالانہ بنیادوں پر تقریباً 26% اضافہ عوام پر اضافی بوجھ ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومتی دعوؤں کے برعکس عملی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عوام بجا طور پر سوال کر رہے ہیں کہ جب چینی پہلے وافر تھی تو اب اس کی قلت کیوں؟ جب برآمد کی گئی تو درآمد کیوں ضروری ہو گئی؟ اور جب قیمت مقرر کی گئی تھی تو اس پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا؟ یہ تمام سوالات حکومتی پالیسی، نگران اداروں کی فعالیت اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیوں کی غیر مؤثر حکمت عملی پر سوالیہ نشان ہیں۔

اس سلسلے میں چند تجاویز ہیں جن میں سرفہرست قومی چینی پالیسی کی تشکیل ہے۔ برآمد اور درآمد کا فیصلہ ایک مربوط اور شفاف پالیسی کے تحت کیا جائے، جو پیداواری تخمینے، ذخائر، اور عوامی ضروریات کو مدنظر رکھے۔ گنے کی فصل، چینی کی پیداوار اور اسٹاک کی حقیقی معلومات عوام اور میڈیا کو فراہم کی جائیں تاکہ افواہوں کا سدباب ہو۔مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے۔چینی سمیت دیگر ضروری اجناس کے نرخوں کی نگرانی کیلئے مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ایک جامع ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا جائے۔چینی کی تجارت کو سیزن سے جوڑنے کی بجائے سال بھر کی پالیسی میں شامل کیا جائے تاکہ اچانک فیصلوں سے بچا جا سکے۔

پاکستان میں چینی کا مسئلہ محض ایک زرعی یا تجارتی مسئلہ نہیں بلکہ حکمرانی، پالیسی سازی اور سماجی انصاف کا امتحان بھی ہے۔ جب تک حکومتیں وقتی مفاد یا دباؤ کے تحت فیصلے کرتی رہیں گی، تب تک چینی کا بحران ہوتا رہے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک جامع، شفاف اور عوام دوست حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ چینی کی قیمت محض عوام کیلئے تلخ یاد نہ بنے بلکہ میٹھی حقیقت بن سکے۔امید ہے کے ارباب اختیار اس مسئلے پر خود کو جھنجوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے۔

مزید خبریں