لاہور (روشن پاکستان نیوز) — سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان جہاں ایک طرف عوامی رابطے کا موثر ذریعہ بن چکا ہے، وہیں دوسری جانب یہ پیشہ ورانہ اداروں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے، خاص طور پر جب بات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہو۔ حالیہ دنوں میں پنجاب پولیس کی بعض خواتین اہلکاروں کی جانب سے وردی میں ٹک ٹاک ویڈیوز اور لائیو سیشنز میں شرکت کے واقعات نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف ڈیوٹی کے اوقات میں غفلت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پولیس وردی کے تقدس اور پیشہ ورانہ طرز عمل پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے کی دوڑ نے پولیس اہلکاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور اب صرف پنجاب نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس میں بھی یہی روش دیکھی جا رہی ہے۔ بعض اہلکار دوران ڈیوٹی نہ صرف ویڈیوز بنا رہے ہیں بلکہ سڑکوں اور تھانوں میں بیٹھ کر گانوں پر پرفارم بھی کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف فورس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی مجروح ہو رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بعض ویڈیوز میں اہلکاروں کو ایسے انداز میں دیکھا گیا ہے جو نہ صرف پیشہ ورانہ تقاضوں کے منافی ہے بلکہ معاشرتی اقدار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ ان ویڈیوز میں پولیس اہلکار مزاحیہ اور فیشن زدہ انداز میں جلوہ گر ہو رہے ہیں، جبکہ ان کی ذمہ داری شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے پولیس فورس کے نظم و ضبط، تربیت، اور سنجیدگی پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
عوامی حلقوں، سماجی ماہرین اور سول سوسائٹی نے اس رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور آئی جی پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس رجحان کا نوٹس لیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وردی پہننے کا مطلب اختیار اور ذمہ داری ہے، نہ کہ شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ۔ ایک جانب عوام سنگین جرائم، چوری، ڈکیتی اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر پولیس کی مدد کے منتظر ہیں، جبکہ دوسری جانب اہلکار موبائل فونز میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سیکیورٹی ادارے اپنے اہلکاروں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے واضح ضابطے اور پالیسی بناتے ہیں تاکہ پیشہ ورانہ اخلاقیات اور حساس معلومات کے افشاء سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں بھی اس ضمن میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر دوران ڈیوٹی موبائل فون کے استعمال پر سخت پابندی عائد کی جانی چاہیے، اور سوشل میڈیا پر وردی میں کسی بھی قسم کی غیر رسمی سرگرمی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی: پولیس و انتظامیہ کی محرم، منشیات، کرائم اور بچوں کی ہلاکت کے واقعات پر بھرپور کارروائیاں
یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام پولیس کو ریاست کا بازو تصور کرتے ہیں، اور جب یہ بازو ہی غیر سنجیدگی، عدم توجہ اور غیر ذمہ دارانہ رویوں میں مصروف نظر آئے، تو نہ صرف نظام عدل متاثر ہوتا ہے بلکہ جرائم کی روک تھام بھی ممکن نہیں رہتی۔ لہٰذا، فوری اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں تاکہ پولیس فورس کا وقار بحال ہو، اور شہریوں کا اعتماد ایک بار پھر جیتا جا سکے۔