جمعرات,  02 مئی 2024ء
ہمارا پیٹ، جنگ ،عورت اور حیوان

تحریر: سید شہریار احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

انسان کے حیوان ہونے کا دوسرا اور اہم نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ایک گہرا گڑھا ہے جسے پیٹ کہتے ہیں

اور اس حقیقت نے غالبا ہماری تہذیب و تمدن پر بڑا گہرا اور برا اثر ڈالا ہے
لیکن اب چونکہ ہمارے جسم میں یہ ایک گڑھا ہے تو اب میں کیا کر سکتا ہوں ؟

میں تو کہوں گا کہ اس پیٹ نے تو ساری انسانی تاریخ کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ہے

آپ دیکھیے نا کنفیوشس، انسانی فطرت کے بارے میں، جو کہ بہت وسیع و نظر انسان تھا کہتا ہے کہ انسان کی دو جبلی خواہشیں ہیں، نان و نفقہ اور اولاد پیدا کرنا

یعنی کہ دو حاجتیں کہ کھانا پینا اور عورت،

خیر کچھ ولی قسم کے حضرات، عورت کے بغیر بھی زندگی گزار کر دکھا چکے ہیں اور انہوں نے خود کو عورتوں کے حسن سے، ان کے خوبصورت جسموں کی نزاکت سے، ان کی قاتل اداؤں سے اپنے اپ کو دور رکھا، مگر کھانا پینا کسی سے نہ چھوٹ سکا

بلکہ ایسے ایسے آپ نے صوفی دنیا میں دیکھے ہوں گے جنہوں نے ساری زندگی معرفت خداوندی کی جستجو میں بسر کر دی اور پرہیزگار و متقی لوگ بھی چند گھنٹے سے زیادہ کھانے سے دور نہ رہ سکے
اور یہ پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لیے کھانے کا واقعہ،دن میں کم از کم تین چار بار تو ضرور ہی کرنا پڑتا ہے

بلکہ آپ ملاحظہ کریں کہ جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہیں جن میں دنیا کے حساس معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں ۔نہایت اہم موضوع پہ گفتگو جاری ہوتی ہے، لیکن دوپہر کے کھانے کے اشارے پر کانفرنس ملتوی کر دی جاتی ہے

بلکہ ایوان اقتدار میں اور پارلیمنٹ میں کھانے کی اوقات کے حساب سے اجلاس طلب کیے جاتے ہیں اور اگر کسی بہت ہی امیر یا یوں کہہ لیں کہ بادشاہ کی تخت نشینی کی رسم بھی اگر پانچ چھ گھنٹے تک چلی جائے اور لوگ کھانا نہ کھا سکیں تو یہ تاج پوشی کی رسم بھی عوام کے لیے ایک زحمت بن جاتی ہے

تو یہ طے ہوا کہ ہماری سوچ صرف کھانے کے گرد گھومتی ہے

میں تو یہ لکھوں گا کہ اللہ نے جو ہمارے جسم میں اعضاء دیے ہیں مثلا ناک، زبان، کان! ہاتھ ،پاؤں یہ سب مناسب اور اپنے دیے گئے مقررہ کام کرتے ہیں
مگر دو اعضاء جو غیر ضروری ہیں وہ ہے منہ اور پیٹ
اور انہی دونوں عضو کی بدولت آفرینش سے ہی بنی نوع انسان، طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہے

منہ سے کھاتا ہے اور منہ سے جو نکالتا ہے وہ ایک علیحدہ مصیبت ہے

منہ اور پیٹ کی وجہ سے انسان کا سلسلہ روزگار بھی متاثر ہوتا ہے اور جب اپ کچھ کمانا چاہتے ہیں پیٹ کی اگ بھرنے کے لیے جو کہ اسان نہیں۔ اپ کو چالاکی، جھوٹ ؟مکاری اور دو نمبری اور بددیانتی کا سہارا لینا پڑتا ہے

اور یہ ساری عیاری اور چالاکی،انسانی معاملوں میں در اتی ہے
جس سے ظاہر ہے قانون بنائے جاتے ہیں تاکہ انسان اپنی حدود میں رہے اور دوسروں کے لیے باعث تکلیف نہ ہو

اور اس قانون کی بدولت یہ حال ہو جاتا ہے کہ اب آپ دیکھیے کہ بادشاہ بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے یا رحم و کرم سے کسی کی زندگی نہیں بچا پاتا اور قانون کے اگے ماں باپ کی محبت بھی بے دست و پاک ہو جاتی ہے

انسان کو پیدائش کے وقت منہ اور پیٹ لگا دیا گیا پودوں کی طرح اگر انسان کا بھی پتلا تیار کیا جاتا اور وہ اپنی خوراک اسی طرح نیچرل طریقے سے ہضم کرتا تو زندگی میں اور اس دنیا میں کتنا امن اور شانتی ہوتی

اور اگر یہ دو فالتو اعضاء ہمیں خدا نے نہیں دیے ہوتے یا یوں کرتا ک ہمیں بھی مچھلیاں اور گھونگوں کی طرح پانی میں تیرتے پیٹ بھرنے کی سہولت مہیا کر دیتا
یا ایسی ٹڈیاں اور مکڑیوں کی طرح جو شبنم سے افزائش حاصل کر لیتے ہیں ہم بھی ایسا کرتے
ہم بھی تیرتے، اڑتے اور ادھر ادھر کودکتے اور پھلانگتے

اگر یہ ہوتا تو زندگی میں کوئی تکلیف یا کشمکش نہ ہوتی

انسان کی ساری مشکلیں، مصیبتیں غائب ہو جاتیں۔

اس نے ہمیں یہ منہ اور پیٹ دے کر قسم قسم کی اشتہا اور رغبت میں مبتلا کر دیا ہے
نتیجے میں ہم زندگی بھر اپنے سارے اعضاء کے ساتھ سخت محنت کرتے ہیں تاکہ ہمارا منہ اور پیٹ مطمئن ہو سکے اور کبھی ان کی طلب پوری نہیں ہوتی

کھانے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح کیجیے جب ہم کسی بزرگ کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے اعزاز میں دعوت ٹکا دیتے ہیں
اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے
دوستوں کی ملاقات اگر کھانے پر ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ ملاقات پرامن طور پر ہوئی
اچھا کھانا ،بحث کی تیزی کو دور کرتا ہے اور اتفاق میں بہتری اتی ہے
اپ نے کبھی دیکھا ہے کہ اگر دو بہترین دوست بھی بھوک کے وقت اکٹھے ہوں گے تو ان کی ملاقات ضرور جھگڑے پر ختم ہوگی

اگر اچھی دعوت کا اہتمام ہوگا تو اس کا اثر دو چار گھنٹے نہیں، دنوں اور ہفتوں تک قائم رہتا ہے
انسان کو انسانی فطرت سے گہری واقفیت اور وابستگی ہونی چاہیے۔ اسی لیے سارے جھگڑوں کا فیصلہ عدالت کی بجائے کھانے کی میز پر ہونا چاہیے
پرانے جھگڑے اور اختلافات بھی کھانے کی میز پر حل کیئے جا سکتے ہیں
اور کھانے کی میز پر اگلے جھگڑوں کی پیش بندی کی جا سکتی ہے بلکہ اپ بار بار کھلا کر اپنے بارے میں اچھی رائے بھی حاصل کر سکتے ہیں

کھانے کھلانا ایک تیر بہ ہدف نسخہ ہے ۔اگر کوئی شخص متواتر ایک ایسے شخص کو کھانا کھلائے جس سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہو تو اپ کو پتہ چلے گا کہ زید کے مرتبے کی ترقی کی رفتار کا تعلق ان دعوتوں کی گنتی کے ساتھ ضرور ہوگا بلکہ بہت گہرا ہوگا جو اس نے مختلف لوگوں کو دی تھی

اب ایک اور بات ملاحظہ فرمائیں ہم پر کھانے پینے کا اثر اتنا بنیادی ہے کہ بڑے بڑے انقلابات، امن و اشتی کے دور، جنگیں، بین الاقوامی سمجھوتے ۔ہماری روز مرہ کی زندگی اور ساری معاشرتی زندگی اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے
دیکھیے انقلاب فرانس کی وجوہات کیا تھی؟
کیا انقلاب فرانس والٹیئر اور روسو کی وجہ سے ہوا ؟
جی بالکل نہیں
اس کی وجہ صرف خوراک تھی

انقلاب روس اور انقلاب چین کے بعد ملک بھر میں اشتراکی تجربے کے اسباب کیا ہیں؟

یہی خوراک کا مسئلہ اور جہاں تک جنگ کرنے کا تعلق ہے تو نپولین جیسے عظیم فاتح نے اپنی گہری دانشمندی کا اس قول سے ثبوت دیا تھا کہ

سپاہی لڑتے ہیں اپنے پیٹ کے بل
ایک مشہور مثل ہے کہ شوہر کے دل پر اس کے پیٹ کی راہ سے قبضہ کیا جا سکتا ہے جب مرد کا جسم مطمئن ہو تو اس کا دل اس کی روح زیادہ مطمئن ہوتی ہے پھر اسے پیار محبت کی سوجھتی ہے۔ اسے بیوی زیادہ اچھی معلوم ہو جاتی ہے ۔

اکثر عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کے بناؤ سنگھار ،کپڑوں تک سے اندھے اور بہرے ہیں
نظر نہیں اتا بیوی نے اج نئے کپڑے پہنے ہیں
مگر کسی کی بیوی نے کبھی یہ شکایت کی کہ میاں کو سالن یا پلاؤ یا املیٹ نظر نہیں اتا ؟
خیر بات بہت لمبی ہو جائے گی بلکہ میں بات یہاں پر ختم کروں گا کہ پیٹ کی بھوک باقی تمام انسانی جبلتوں پر حاوی ہے

گویا ساری بات یہ ہوئی کہ موت کی طرح کھانے کے سلسلے میں بھی ہم سب انسان، بنیادی طور پر بھائی بھائی ہیں

میں جانتا ہوں اپ حضرات عورت کے بارے میں پڑھنا چاہتے تھے لیکن میری بات ختم ہو گئی اور عورت کا ذکر نہیں ہوا
لیکن ابھی ٹھہریے، عورت کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا
کہ

عورت ایک پہیلی

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News