منگل,  30 اپریل 2024ء
جنرل صاحب کے نام تعزیتی خط

تحریر: سید شہریار احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

!جنرل صاحب السلام علیکم امید ہے اپ خیریت سے ہوں گے
گزشتہ ہفتے ایک معروف این جی او کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں، آپ سے سرسری سی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور آپ کا حاضرین سے خطاب سننے کا موقع ملا

سیمینار کا موضوع تھا (جمہوریت کے فوائد اور اس میں تعطل کے نقصانات )جس میں سیاست دانوں اور معاشرے کے معروف قلم کاروں، دانشوروں کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی تھی تاکہ فوج کی بھی نمائندگی ہو سکے اور جو فوجی حکمرانوں کے حوالے سے عوام کے تحفظات ہیں آپ کو اس کی وضاحت کا موقع مل سکے

لیکن اپ نے اپنے خطاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ معاشرے کی تمام خرابیوں کی جڑ موجودہ جمہوری نظام ہے اور آپ نے اپنی پوری کوشش کی کہ آمرانہ حکومتوں کے لیے جواز پیش کر سکیں

اور ساتھ ہی ساتھ اپ نے فوج کی قربانیوں کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ عوام کو فوجی جوانوں اور افسروں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے

سر گزارش ہے کہ قربانی کا عام مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی کام بلا معاوضہ یا فی سبیل اللہ کیا جائے کسی نیک مقصد کے لیے، جیسے ایدھی صاحب کی زندگی لوگوں کے سامنے ایک مثال ہے

جنہوں نے اپنی زندگی رضا الہی کے لیے وقف کر دی اور دو چار جوڑوں میں اور پھٹے ہوئے جوتوں میں اپنی پوری زندگی گزاری اور نہایت سادہ غذا کھائی
ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جنہوں نے صرف اللہ اور رسول کی رضا کی خاطر عوام کی خدمت کی

اور ویسے بھی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اپ کی ذمہ داری اور فرض ہے کیونکہ اپ کو اس کے لیے بھاری تنخواہ اور بے شمار مراعات ملتی ہیں۔ مراعات کا ذکر پھر سہی، پہلے یہ بتائیے کہ فوجی ہر وقت عوام پر احسان کیوں جتلاتے ہیں کہ فوج نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ کیا دوسرے اداروں نے اور عام لوگوں نے ملک میں دہشت گردی کی زد میں ا کر قربانیاں نہیں دیں؟ پولیس کو ہی دیکھ لیں کتنے ہی پولیس اہلکار اور افیسرز اپنے فرائض کی انجام دہی میں شہید ہو چکے ہیں اور ان کے لواحقین کو کیا ملتا ہے؟

80 ہزار کے لگ بھگ معصوم شہری دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے ہیں اور قربانیوں کا سہرا صرف فوج کے سر
آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ عام ادمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے جمہوری حکمرانوں نے کیا کیا ؟تو جنرل صاحب اپ بتائیے فوجی حکمرانوں نے اپنے دور حکومتوں میں عوام کا معیار زندگی کتنا بلند کیا ہے؟ میں معیار زندگی عوام کا پوچھ رہا ہوں فوجیوں کا نہیں۔ جبکہ عام ادمی کا معیار زندگی دن بدن نیچے اتا جا رہا ہے ۔
سر 16 سال کا ایک نوجوان ارمی کو جوائن کرتا ہے تو پہلے دن سے ہی اس کی زندگی کی ہر مشکل اسان ہو جاتی ہے۔ بیٹ مین صبح سویرے جوتے پالش کر کے اور وردی استری کر کے کیڈٹ کی خدمت میں لے اتا ہے۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ اتنے چھوٹے بچے کو جو پہلے دن پروٹوکول ملتا ہے تو اس کا کانفیڈنس لیول کہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ نہ اسے کھانے کی فکر، باورچی! کک، رنر، گارڈ! ڈرائیور ہر کوئی اس کے ایک اشارے کا منتظر
یقین مانیں کہ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن بخدا یہ نہ کہا کریں کہ فوج کا مزہ جو پہلے تھا وہ اج نہیں

آپ یقین کریں میں نے دو افیسرز کی انکھوں میں نمی دیکھی ہے کہ ان کا بیٹا فوج میں نہیں جا سکا ۔اس لیے نہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا فوج میں جا کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور ملک کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر سکیں۔ کوئی ماں باپ ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کا بیٹا شہید ہو ۔کون ماں باپ یہ چاہیں گے کہ ان کے بیٹے کی لاش گھر آئے؟ بلکہ پروٹوکول، سول سوسائٹی میں عزت، رشتوں کی بھرمار، مس ڈائننگ، پورے ملک میں پھیلے ہوئے گیسٹ ہاؤسز میں رہائش اور ارزاں نرخوں پر اعلی مزے ،اتنی مراعات کے بعد بھی سمجھ نہیں اتی اپ ہی سمجھا دیں کہ فوجیوں کو ریلوے کی کرایوں ،سینما گھرو!ں ہوائی جہازوں میں بھی 50 فیصد رعایت کیوں دی جاتی ہے؟ (اس سادگی پر کون نہ مر جائے خدا )

یشومتی میا سے بولے رنگ لالہ
رادھا کیوں گوری میں کیوں کالا

میں نے بچپن نے سنا تھا کہ اپ کے سارے مزے عوام کے ٹیکس سے ہو رہے ہیں ۔اللہ کرے یہ بات غلط ہو لیکن اگر اپ کو دیکھیں تو سولہویں صدی کے کسی شاہی خاندان کے چشم و چراغ نظر اتے ہیں۔ مہنگے ترین سوٹ میں ملبوس ۔کالے رنگ کے چمکدار برانڈڈ جوتے اور لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ کی کار جواب کا ڈرائیور چلا رہا تھا ،اس پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ اپ کے ڈرائیور کے ملبوسات بھی ایک سفید پوش انسان کے کپڑوں سے زیادہ مہنگے تھے
ابھی غصہ نہیں کرنا میری پوری بات سن لیں اپ۔ بعد میں کسی موقع پر اپنا جواب پیش کر سکتے ہیں یا پھر خط لکھ کر بھی وضاحتیں کر سکتے ہیں یا مجھ پر غصہ نکال سکتے ہیں میں تحمل سے سن لوں گا

اب ایک منٹ ٹھہریے، لوگ پوچھتے ہیں کہ ایک ارمی افیسر عوام کو کتنے میں پڑتا ہے؟ ایک ریٹائرڈ میجر کے لیے ایک گھر، دو پلاٹس اور کچھ زرعی زمین، لگ بھگ 20 کروڑ سے اوپر
اور اسی طرح کرنل 30 سے 40 کروڑ اور جنرل تو کیا ہی بات ہے لگ بھگ 80 90 کروڑ میں ریٹائرمنٹ پر پڑتا ہے

یہ چیزیں عوام سے چھپی رہیں تو بہتر ہے آخر فوج نے اس ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں
دشمن کے نشانے پر چند ہزار فوجی ہیں جو سرحدوں پر ڈیوٹی کر رہے ہیں جبکہ پولیس افسر اور سپاہی 24 گھنٹے ڈیوٹی اور جرائم پیشہ کی گولی کے نشانے پر، پھر فکر کریڈٹ صرف فوجی لے جاتے ہیں

اور پولیس والے کی شہادت پر اس کو ملتا کیا ہے صرف چند لاکھ غالبا 15 لاکھ روپے جو کہ اس کے لواحقین کا صرف ایک سال کا خرچہ ہوگا اور افیسر کی شہادت پر 25 سے 30 لاکھ روپے اور وہ بھی مہینوں دھکے کھانے کے بعد ،اولاد کے لیے نوکری اور تعلیم کے صرف وعدے
ایک فوجی اہلکار کی شہادت کے بعد اس کے لواحقین کو کیا ملتا ہے بتاؤں میں،سبھی
چلیں رہنے دیں اور یہ جو عوام پیدائش پاکستان سے لے کر اب تک قربانیاں دیتی چلی ا رہی ہے
نہ عوام کی عزت و ابرو محفوظ ہے نہ ہی عوام کو فوری اور سستا انصاف ملتا ہے۔ بجلی کا بحران، صاف پانی کی کمیشن صحت کے مسائل سے نمٹنے میں تاخیر، یہ سب عوام کا ہی مقدر کیوں؟

کبھی سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کی حالت زار دیکھیے اور پھر اپنے فوجی ہسپتالوں میں فوجی جوانوں اور افیسرز کی تیمارداری کے معیار ملاحظہ کیجئے
چلیں اسے بھی چھوڑیے اپ یہ بتائیں کہ دنیا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاوہ اور کون سا ملک ہے جس میں فوج کے علیحدہ ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔ کسی ایک ملک کی مثال دیں جہاں فوج کے اہل و عیال کے لیے الگ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جاتی ہیں، فوج کے ایک پروفیشنل ادارہ ہونے کے علاوہ فوجیوں کو پیسہ بنانے کے لیے کمرشل بینک۔سلام شوگر ملز ۔سلامسیمنٹ فیکٹریاں فوجی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام نوٹ چھاپنے کے ادارے مہیا کیے جاتے ہیں؟ سالانہ کھربوں کا بجٹ کدھر جاتا ہے۔؟ اس کو بھی رہنے دیں جنرل صاحب، ہمیں یہ بتائیں کہ کس ملک میں فوجی خاندانوں کے لیے علیحدہ پارک ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ تدریسی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو گورے بھی نہیں کرتے تھے جن کی نقل میں ہم مرے جاتے ہیں۔ گوروں نے تو صرف اتنا کیا تھا کہ انڈیا میں فوج کے لیے جو رہائش گاہیں تھیں ان کو کنٹونمنٹ ایریاز کہا جاتا تھا کہ وہ عام لوگوں سے گھل مل کر نہ رہیں اور ان کا ایک خوف عوام پر قائم رہے جو کہ اج بھی ہے
اس زمانے میں ایسا کرنے کی کچھ وجوہات تھیں لیکن اب تو فوجی ادارہ بہت منظم ہو چکا ہے اور فوج کے اور عام ادمی کے طرز زندگی میں زمین و اسمان کا فرق ہے
ایک گیدرنگ میں جہاں پر ریٹائرڈ ارمی افسران ائے ہوئے تھے تو میرے ایک جاننے والے کرنل صاحب نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ فوج میں بڑی سختیاں ہیں فوج 16 سال کا جوان انڈکٹ کر کے اسے 45 46 سال کی عمر میں فارغ کر دیتی ہے تو میرے دل میں خیال ایا کہ ان تمام افیسرز نے اپنے بیٹوں کو فوج میں بھرتی کروایا ہے اج کل کے فوجی حالات سے اتنے ہی رنجیدہ ہیں تو اپنے بچوں کو فوج میں کیوں بھیج رہے ہیں۔ تو حضور عرض کروں کہ فوج ایک علیحدہ ہی دنیا اور الگ انداز زندگی کا نام ہے فوجیوں کی علیحدہ رہائش گاہیں اور کالونیاں ۔

اپ لوگ تو مرنے کے بعد سولین کے ساتھ دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتے۔ اپ لوگوں کے قبرستان بھی علیحدہ
فرانس اور برطانیہ جنہوں نے سینکڑوں سال جنگیں لڑی اور آدھی آدھی دنیا پر حکمرانی کی ان کے جرنیلوں کے سینے پر بھی اتنے تمغے اور اعزازات نہیں چمکتے جتنے ایک پاکستان ارمی کے میجر کے سینے پر سجتے ہیں

قوم جاننا چاہتی ہے کہ اپ نے کتنا علاقہ فتح کر کے ریاست پاکستان میں شامل کیا ۔جنرل صاحب ایک احسان کریں قوم کو بتا دیں کہ 2029 کی اگلی حکومت کون بنائے گا پی پی یا مسلم لیگ نون اور( پی ٹی ائی کو تو اپ لوگوں نے ویسے ہی فارغ کرنے کا بادی و نظر میں پختہ عزم کر رکھا ہے) تاکہ عوام جو ہر وقت ایک دوسرے سے سیاسی محاذ پر دست و گریباں رہتی ہے ٹھنڈی ہو جائے

میں عوامی ادمی ہوں عام لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں اپ کو سچ بتاؤں تبدیلی سرکار کی کارکردگی کے بعد نہ جانے کیوں عوام میں افواج کے حوالے سے بڑی بدگمانی پائی جاتی ہے برائے مہربانی ایسے اقدامات کریں کہ عوام اپ کے قریب ائے جو کہ اب ممکن نظر نہیں اتا اور برائے مہربانی یہ تکرار چھوڑ دیں کہ فوج کمزور ہوئی تو ہمارا حال عراق اور افغانستان جیسا ہوگا دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں جن کی فوجی قوت نہیں اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور طاقتور فوج رکھ بھی لیں تو ہمیں کیا مل جائے گا 76 سال سے اپنے ملک پر قبضہ اور اپنی ہی عوام پر طاقت کا استعمال
چلیے جنرل صاحب اپ موڈ اچھا کر لیں میں اپ کو ایک جوک سناتا ہوں

ایک فوجی ہوتا ہے اور وہ بڑا عقلمند ہوتا ہے

فقط ایک بلڈی سویلین

مسلح افواج زندہ باد پاکستان پائندہ باد

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News