منگل,  21 مئی 2024ء
سپریم کورٹ ،اسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکےخط پرازخودنوٹس کی سماعت

اسلام آباد(روشن پاکستان  نیوز) سپریم کورٹ میں اسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکےخط پرازخودنوٹس کی سماعت شروع۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس پرچیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت شروع ۔
چھ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی چھ رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔وضاحت کرنا چاہتا ہوں کے 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا،کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا ،دستیاب ججز کیس سنیں گے،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں،ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیے لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے ان پر ہم میں سے بھی لوگوں نے دباو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں،چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی،پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، کیاآپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات دیکھی ہے؟ چیف جسٹس کا اٹارنی

جنرل سے مکالمہ

اٹارنی جنرل نےکہاہائی کورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھی۔
اب اس معاملے کو کیسے آگے بڑھاے، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

جسٹس اطہر من اللہ نےکہااٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس نےکہا ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟
اٹارنی جنرل کہاجی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں۔

اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا،جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےمیں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، لوئر جوڈیشری کے بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں کیا یہ مداخلت نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نےریمارکس دئیےلاہور ہائیکورٹ کی گزارشات سے میں سمجھاہوں کہ مداخلت ایک کھلا راز ہے اور اب اس کا حل ہونا چاہیے ۔

مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام خط

چیف جسٹس نےریمارکس دئیے کہ میرے خیال سے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے،جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، میں نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور میرے دور میں کوئی شکایت نہیں، یہ شکایتیں پہلے کے دور کی ہیں،میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے اس عدالت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا گیا،عدلیہ کی آزادی کیلئے اسکا بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے ،کیا ایک چیف جسٹس کسی جج کو کہہ سکتا ہے کہ کیس اس طریقے سے چلاے ، اگر عدالت آزاد ہو تومکران کا بھی سول جج اتنا بااخیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے، میری نظر میں مانیٹرنگ ججز بھی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہے، عدلیہ میں بھی خود احتسابی کے نظام پر عملدرآمد کرنا ہوگا ،پہلے دن سے واضح کرچکا ہو کہ بطور جج کسی قسم کی مداخلت اور دباو برداشت نہیں کروں گا۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News