عالمی عدالت انصاف میں پاکستان نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم پر سوال اٹھا دیا
دی ہیگ(روشن پاکستان نیوز)پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اپنا مقف پیش کرتے ہوئے فلسطینی عوام اور ان کے حق خودارادیت کی مکمل حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ فلسطین سے متعلق مشرق وسطی میں دو ریاستی حل امن کی کلید ہونا چاہیے۔
عرب ٹی وی کے مطابق نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے پر پاکستان کا مقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی پالیسیاں اور طرز عمل منظم نسلی امتیاز اور نسل پرستی کے مترادف ہے۔
نگراں وزیر قانون نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام اور ان کے حق خودارادیت کا محافظ رہا ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے یروشلم پر اسرائیل کے حملے اور اس کے جغرافیائی حدوں کو تبدیل کرنے کے لیے اسرائیل کے اقدامات سے متعلق حماس اسرائیل جنگ کے چھٹے دن ہی جنرل اسمبلی میں پہلی قرارداد پیش کی۔
نگراں وزیر قانون نے کہا کہ پاکستان کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور وہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق دو ریاستی حل پر یقین رکھتا ہے جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدیں اور القدس الشریف (یروشلم)فلسطین کا دارالحکومت ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے پاکستان فلسطین کے داخلی استحکام اور یہاں کے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
مزیدپڑھیں:عام انتخابات کے نتائج سپریم کورٹ میں چیلنج
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کا عالمی عدالت کے سامنے یہی مقف ہے کہ دو ریاستی حل امن کی بنیاد ہونی چاہیے۔
نگراں وزیر قانون وانصاف احمد عرفان اسلم مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور طرز عمل سے پیدا ہونے والے نتائج سے متعلق کیس میں عالمی عدالت انصاف کی جاری مشاورتی کارروائی میں پاکستان کا مقف پیش کیا ہے۔
نگراں وزیر قانون نے اپنی تقریر میں پناہ گزینوں کی آبادکاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی صریحا خلاف ورزی ہے۔
نگراں وزیر قانون نے اپنے موقف میں مزید کہا کہ اسرائیل نے 1967 سے فلسطینی عوام کے خلاف نسلی امتیاز کا نظام نافذ کر رکھا ہے، یہ ایک ایسا نظام ہے جو جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے فلسطینی آبادی اور یہودی اسرائیلی آباد کاروں کے درمیان نسلی اور مذہبی خطوط پر غیر قانونی طور پر علاقے میں منتقل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یروشلم اس لیے بھی مقدس شہر ہے اور منفرد ہے کہ یہ تینوں ابراہیمی مذاہب کے لیے مقدس ہے۔ اس تاریخی صورت حال کے تحت یہ عیسائی، مسلم اور یہودی برادریوں کا حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر شہر میں اپنی عبادت گاہوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کی عبادت کریں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی حیثیت کو نام نہاد معروضی حکومت کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جسے ایک ہتھیار کے طور پر فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلم نے مطالبہ کیا کہ تاریخی حیثیت کے تحت انسانی اور مذہبی حقوق فوری طور پر بحال کیے جائیں، انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر قانون نے پھر دہرایا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ 2 ریاستی حل امن کی بنیاد ہونا چاہیے۔
انہوں نے وال کیس میں آئی سی جے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ مذاکرات میں بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر جلد از جلد تصفیہ طلب مسائل کو حل کیا جاسکے اور ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے جو اسرائیل اور اس کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خطے میں موجود ہو۔
نگراں وزیر قانون نے عدالت سے کہا کہ پاکستان ان معاملات کو دیکھنے کے لیے اپنا مقف تھوڑا سا مختلف طریقہ سے تجویز کرکے عدالت کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے اور پھر اس غیر قانونی قبضے کے نتائج برآمد ہوں گے۔