لندن (روشن پاکستان نیوز) برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ میں اقدامات کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں، تاہم ان کا اصرار ہے کہ حالیہ جی7 اجلاس کے دوران ان کی صدر ٹرمپ سے اس حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
جی7 اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے اچانک واشنگٹن واپسی کا اعلان کیا، جس کے بعد عالمی سطح پر یہ سوال اٹھنے لگا کہ آیا وہ ایران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے والے ہیں۔
ایک انٹرویو کے دوران جب صحافی گیری گبن نے اسٹارمر سے سوال کیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ دراصل کیا کرنے جا رہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا، “صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے واپس جا رہے ہیں۔”
اسٹارمر نے بتایا کہ جی7 اجلاس کے دوران ان کی صدر ٹرمپ کے ساتھ دو گھنٹے طویل عشائیے پر گفتگو ہوئی جس میں ایران، اسرائیل اور غزہ کے معاملات پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔
گیری گبن نے نشاندہی کی کہ صدر ٹرمپ نے جی7 اعلامیے میں فوری جنگ بندی کی حمایت نہیں کی بلکہ ایران کے بحران کے بعد امن کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں بھاری عسکری سازوسامان منتقل کر رہے ہیں اور ایران کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اسٹارمر کا جواب تھا: “ہم سب نے مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق کیا، جس میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف سخت موقف اور خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔”
مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بین الاقوامی رہنماؤں کے ساتھ منفی رویے: ایک تجزیاتی رپورٹ
جب ان سے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: “یہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے۔ میں واضح طور پر کہہ چکا ہوں کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام ناقابل قبول ہے اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اصل فوکس کشیدگی میں کمی اور تنازعے کے مذاکراتی حل پر ہے۔ “میں قانونی تجزیوں میں نہیں پڑوں گا جب ہم ایک فعال اور پیچیدہ بحران کے بیچ میں ہیں۔”
آخر میں، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا برطانوی عوام خود کو محفوظ تصور کریں جب امریکہ کے صدر اس بحران کے مرکز میں ہوں؟ تو اسٹارمر نے جواب دیا: “جی ہاں، میں صدر ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہوں، جو ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ دفاع، سیکیورٹی اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں ہمارے تعلقات ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں، اور میں ان کو مزید مستحکم بنانے پر کام کر رہا ہوں۔”
یہ انٹرویو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ برطانیہ کی قیادت ایک نازک بین الاقوامی صورتحال میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ امریکہ کی جانب سے یک طرفہ اقدامات عالمی خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔