اتوار,  05 مئی 2024ء
گوتم بدھ بنیں اور زندگی کا چس لیں

تحریر: سید شہریار احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

دل دکھانے والی باتوں پر دھیان نہ دیں

کسی بات پر بھی بےعزتی ہو، شرمندگی محسوس نہ کریں

بے شعور آدمی ردعمل کا اظہار کرتا ہے جبکہ باشعور مشاہدہ کرتا ہے

ھم بڑی زود رنج اور رقیق القلب قوم ہیں
کیونکہ ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں وہاں ہر کوئی ہر کسی کو شرمندہ، شرمسار کرنے اور اپنے سے پیچھے دھکیلنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے جس بنا پر ہم سب لوگ پریشان اور اداس رہتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں دوستوں کا ،حالات کا! رشتے داروں کا، اور یہ گلہ شکوہ ہماری اخرت تک جاری رہتا ہے بلکہ ہمیں اگے بڑھنے سے بھی روکتا ہے، ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔

میرے پاس ایسے لوگوں کو روکنے کے لیے (جو کہ دوسروں کی ترقی سے خائف رہتے ہیں اور سازشیں بنتے رہتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ سازشیں اکثر کامیاب ہو جاتی ہیں) کوئی طریقہ، کوئی علاج، کوئی گدڈ سنگھی نہیں ہے

لیکن اپ لوگوں کو ایک دو واقعات، ایک جوک۔ ایک کہانی سنا سکتا ہوں جس سے ممکن ہے کہ ایک شخص بھی اثر لے کر کے اپنی بے چینی ،شرمندگی نا امیدی پر قابو پا سکے

بات یہ ہے کہ ہم جب بھی عمل کرتے ہیں اپنے ماضی کے حوالے سے کرتے ہیں
ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں۔ ہم ان نتائج کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں جنہیں ہم نے ماضی سے اخذ کیا ہے اور ہم پر ماضی غلبہ پا لیتا ہے جس کی وجہ سے ہم حال کو نہیں دیکھ پاتے۔ ہماری انکھیں، ماضی کی دھول سے بھری ہوتی ہیں جس سے ہمارا مشاہدہ کرنا اور موجودہ حالات کو سمجھنا ممکن نہیں رہتا اور ہم نابینا ہو چکے ہوتے ہیں۔
ماضی کے اخذ کردہ نتائج کی وجہ سے نابینا ،کیونکہ ہم تجربہ سے بہت کچھ سیکھ چکے ہوتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں
لہذا علم کا حامل انسان، دنیا کا سب سے زیادہ نابینا انسان ہوتا ہے اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر عمل کرتا ہے اور اس طرح حالات کا مشاہدہ نہیں کر پاتا
وہ مشینی انداز میں عمل کیے جاتا ہے
انسان عام طور پر ماضی کی وجہ سے عمل کرتا ہے جبکہ زندگی تبدیل ہو رہی ہے۔

زندگی ہمارے نتائج سے ہم اہنگ ہونے کی پابند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی اتنی الجھا دینے والی ہے اور خاص طور پر علم والے لوگوں کے لیے بہت ہی زیادہ تکلیف دہ۔

علم والے کے پاس تمام بنے بنائے جوابات ہوتے ہیں ۔اس نے قران ،سنت! فلاسفی، بھگوت گیتا، بائبل، سب کچھ رٹ لیا ہوتا ہے
سب جواب جان چکا ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کبھی پہلے جیسا سوال دوبارہ نہیں اٹھاتی

لہذا علم والا انسان ہمیشہ ناکام رہتا ہے

اب چونکہ میں نے کہا کہ زندگی میں نئے نئے سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور زندگی پہلے جیسے سوالات دوبارہ نہیں اٹھاتی تو اس حوالے سے اپ کو ایک مشہور کہانی سناتا ہوں

جاپان کے دو معبد تھے جو کہ ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے جیسا کہ صدیوں سے ہوتا ہے کہ پجاری ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں

اور وہ دونوں معبدوں کے پجاری ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے تھے اور اپنے چیلوں کو بھی سمجھاتے تھے کہ دوسرے کے چیلے کے ساتھ بات نہ کرنا

لیکن ایک پجاری کا چیلہ لمبی لمبی نصیحتیں اور باتیں سن کر تنگ ا چکا تھا اور اس میں دوسرے لڑکے سے بات کرنے کی خواہش پیدا ہو چکی تھی
ایک دن ان بچوں کا بازار میں امنا سامنا ہو گیا
ایک لڑکے نے دوسرے سے پوچھا کہا جا رہے ہو؟

دوسرا لڑکا ذرا فلسفی تھا۔ وہ فلسفی سا ہو گیا۔ اس نے کہا ۔

جا رہا ہوں؟
کون آتا ہے ؟
کون جاتا ہے؟
میں تو مردہ پتے کی طرح زندہ ہوں
جہاں ہوا لے جائے چلا جاتا ہوں

سوال کرنے والا لڑکا بہت حیران ہوا ۔اسے اپنی گرو کی بات یاد ائی کہ ان لوگوں سے نہ ملنا یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں

چند دنوں بعد اس کی پھر اس لڑکے سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟
اس مرتبہ لڑکے نے سوچ رکھا تھا کہ جب یہ بولے گا کہ ہوا جہاں لے جائے وہاں جا رہا ہوں تو میں اس سے پوچھوں گا۔ اچھا اگر ہوا نہ چل رہی ہو تو پھر تم کہاں جا رہے ہو ؟

لہذا اس نے لڑکے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟
تو اس لڑکے نے جواب دیا

جہاں ٹانگیں مجھے لے جائیں وہاں جا رہا ہوں۔

اب تو بات کرنا بیکار تھا ۔یہ لڑکا بہت شرمندہ ہوا کہ پہلے اس نے کہا تھا کہ جہاں ہوا لے جائے وہاں جا رہا ہوں
اب یہ کہتا ہے کہ جہاں ٹانگیں لے جائیں وہاں جا رہا ہوں
وہ اپنے گرو کے پاس ایا ۔گرو کو ساری کہانی سنائی۔ گرو نے کہا میں نے تمہیں ان لوگوں سے بات کرنے سے منع کیا تھا یہ خطرناک لوگ ہیں یہ ہمارا صدیوں پرانا تجربہ ہے
پس تم کل اس سے پوچھنا کہ کہاں جا رہے ہو؟جب وہ کہے ۔جہاں ٹانگیں مجھے لے جائیں
تو تم کہنا کہ اگر تمہاری ٹانگیں نہ ہوں تو پھر تم کہاں جا رہے ہو؟ تو وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے گا اور اسے شرمندہ ہونا پڑے گا

لہذا اگلے دن لڑکے نے دوبارہ پوچھا تم کہاں جا رہے ہو؟

دوسرے لڑکے نے جواب دیا

میں سبزی لینے جا رہا ہوں

 

انسان عام طور پر ماضی کی بنیاد پر عمل کرتا ہے جب کہ زندگی تبدیل ہو رہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ زندگی ہر بار ایک نیا سوال کھڑا کرتی ہے
اپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرے کالم کا موضوع ہے گوتم بدھ بنو
بے عزتی اور شرمندگی محسوس نہ کرو
اور دل دکھانے والی باتوں پر دھیان نہ دو
تو اس طرف تو میں ابھی ایا ہی نہیں

چلیں اب میں موضوع کی بات کرتا ہوں
کوئی شخص ہماری بے عزتی کرتا ہے وہ صرف ایک بٹن دباتا ہے اور ہم رد عمل کرتے ہیں
ھم ناراض ہو جاتے ہیں ۔ اس پر چڑھائی کرتے ہیں۔ اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ اس نے ایک بٹن دبایا اور ھم کسی مشین کی طرح حرکت میں اگئے بالکل ویسے ہی جیسے تم بٹن دباتے ہو تو روشنی جل اٹھتی ہیں اور بٹن بند کرتے ہو تو روشنی بجھ جاتی ہے

لوگ ہمارے ساتھ ایسا ہی تو کر رہے ہیں
کوئی شخص ہماری تعریف کرتا ہے تو ہماری انا کو سہلاتا ہے۔ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے کوئی ہم پر تنقید کرتا ہے تو ہماری ہوا نکل جاتی ہے۔ کوئی بھی ہماری بےعزتی کر کے ہمیں اداس ، حواس باختہ اور پاگل کر دیتا ہے
کوئی بھی شخص ہماری تعریف کر کے ہمیں برتری کا احساس دلاتا ہے
اپ گوتم بدھ بنیں
اپ یقین مانیں اپ نے اس بات پر عمل کر لیا تو زندگی کی بہت سی اذیتوں سے بچ جائیں گے

میں تو دس فیصد بھی گوتم بدھ بن جاؤں تو زندگی سفل ہو جائے ۔ میں نے گوتم کی اس بات پر حتی الامکان کوشش شروع کر دی ہے

اپ بھی کوشش کیجئے
۔اب میں اپ کو گوتم بدھ کا واقعہ سناتا ہوں

گوتم بدھ ایک بستی سے گزر رہے تھے بستی کے لوگوں نے ان کی بڑی بےعزتی کی انہوں نے گوتم بدھ کو گالیاں دیں ۔وہ خاموشی سے ،انتہائی توجہ سے ان کی گالیاں سنتے رہے پھر بولے
اپ کا شکریہ، میں جلدی میں ہوں
اگلی بستی میں پہنچنا ہے
لوگ وہاں میرا انتظار کر رہے ہیں۔
میں جب دوبارہ یہاں سے گزروں گا تو پھر جو کچھ اپ نے کہنا ہوگا وہ دوبارہ کہہ لینا
اب اپ مجھے جانے دیں
( جیسا کہ ہوتا ہے پیغمبروں کے ساتھ ان کی امت کے لوگ زیادتی کرتے ہیں ،بدتمیزی کرتے ہیں! لڑتے ہیں ،انہیں ایزا دیتے ہیں شش ایسا ہی گوتم کے ساتھ کر رہے تھے) جب انہوں نے گوتم کا یہ جواب سنا تو ان لوگوں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ایا

انہوں نے سوچا کہ اس شخص پر ہماری گالیوں کا بالکل اثر نہیں ہو رہا تو ان میں سے ایک ادمی بولا

گوتم تم نے ہماری گالیاں نہیں سنی ؟
ہم نے تمہیں اتنی گالیاں دی تم نے کسی بات کا جواب نہیں دیا

گوتم بولے
اگر تمہیں جواب کی خواہش ہے تو تم نے بہت دیر کر دی ہے تمہیں دس برس پہلے انا چاہیے تھا تب میں تمہیں جواب دیتا
اب ان دس برسوں میں، میں نے دوسروں کے ہاتھوں کھیلنا چھوڑ دیا ہے۔ اب میں اپنا غلام نہیں رہا۔ اب میں اپنا آقا ہوں ۔اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہوں۔ کسی دوسرے کی مرضی کے مطابق نہیں
تم مجھے کسی رد عمل پر مجبور نہیں کر سکتے

ٹھیک ہے تم لوگوں نے مجھے گالیاں دیں ۔تم نے اپنا کام احسن طریقے سے پورا کیا۔ تمہیں تسکین ہوئی اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے بےعزتی محسوس نہیں کی۔ جب تک میں محسوس نہیں کروں گا تمہاری گالیاں بیکار ہوں گی

تو سنا اپ لوگوں نےگوتم بدھ کا جواب؟
۔ جب کوئی شخص ہماری بے عزتی کرتا ہے تو ہمیں وصول کرنے والا بننا پڑتا ہے
ہمیں وہ کچھ قبول کرنا پڑتا ہے جو وہ کہتا ہے تبھی ہم رد عمل دیتے ہیں
اگر ہم قبول ہی نہ کریں۔ اگر ہم لا تعلق رہیں۔اگر ہم فاصلہ رکھیں ۔اگر ہم ٹھنڈے ہوں۔ تو وہ کیا کر سکتا ہے؟
چونکہ میں نے شروع میں ایک لطیفے کی بات بھی کی تھی لہذا آپ کو ایک جوک سناتا ہوں

انشورنس کمپنی کی ٹریننگ ختم ہوئی انہیں فیلڈ پر بھیجا گیا۔ ایک مہینے بعد ایک لڑکا بولا۔ مینجر صاحب میں نے انشورنس کمپنی میں جاب نہیں کرنی ۔لوگ بڑی بےعزتی کرتے ہیں۔ آفس بلا کے چار چار گھنٹے انتظار کرواتے ہیں۔ فون کرو تو فون نہیں اٹھاتے۔ اچھے طریقے سے بات نہیں کرتے۔ لہذا میں یہ کام نہیں کر سکتا میری بڑی بےعزتی ہوتی ہے

تو ریجنل مینجر نے نوجوان سے کہا
دیکھو بھائی کس بات کی بےعزتی ؟
جب ہم نے کام شروع کیا تھا تو لوگ دو دو مہینے ٹائم نہیں دیتے تھے۔ دفتروں میں بلا کے نکل جاتے تھ۔ اپنے گھروں پہ بلا کے ہم پر کتے چھوڑ دیتے تھے لیکن کبھی ہماری کسی نے بےعزتی نہیں کی

تو بھائیو اپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اپ بھی اسی سپریٹ کا مظاہرہ کریں

یا تو گوتم بدھ کی طرح شانت ہو جائیں

یا پھر انشورنس کمپنی کے ریجنل مینجر کی سپرٹ کا مظاہرہ کریں

گوتم بدھ بنیں اور زندگی کا چس لیں

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News