اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کا پھیلاؤ بے حد تیز ہوا ہے اور اس نے ہر طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ جہاں یہ پلیٹ فارمز علم، تربیت اور دینی پیغام کے فروغ کا ذریعہ بن سکتے ہیں، وہیں افسوسناک طور پر کچھ افراد، خاص طور پر چند مولوی صاحبان اور قاری حضرات، ان ذرائع کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور فیس بک پر متعدد ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں بظاہر نعت یا حمد پیش کی جا رہی ہوتی ہے، لیکن پس منظر میں رومانوی یا فلمی طرز کی موسیقی سنائی دیتی ہے۔ بعض اوقات تو اندازِ ادائیگی، تاثرات، اور لباس بھی اس قدر غیر سنجیدہ اور نامناسب ہوتے ہیں کہ اصل پیغام دھندلا جاتا ہے۔ یہ انداز درحقیقت دینِ اسلام کے تقدس اور دینی روایت کی پامالی کے مترادف ہے۔
نعت خوانی، حمد، اور قرآن پاک کی تلاوت انتہائی پاکیزہ اور سنجیدہ عبادات ہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جن سے دل نرم ہوتے ہیں، روح میں سکون اترتا ہے، اور انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن جب ان روحانی اعمال کو سستی شہرت، لائکس اور ویوز کے لیے موسیقی، میک اپ، اور نمائشی انداز کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف دین کا تقدس مجروح ہوتا ہے بلکہ عام لوگوں میں دین کا تصور بھی سطحی اور غیر سنجیدہ بن جاتا ہے۔
علماء کرام اور دینی شخصیات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ دین کی تعلیمات کا انداز ایسا ہونا چاہیے جو اصلاح، ہدایت اور سچائی کی عکاسی کرے، نہ کہ شہرت، نمائش اور تفریح کا باعث بنے۔ اگر نعت یا تلاوت کو بھی صرف وائرل ہونے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، تو یہ نہ صرف ایک خطرناک رجحان ہے بلکہ روحانی زوال کی علامت بھی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے افراد تنقید ہونے پر اسے “دین کی خدمت” قرار دے کر خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ اصل مقصد صرف ذاتی تشہیر اور سوشل میڈیا کی مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ اس طرح کے رویوں سے نوجوان نسل کے ذہنوں میں دینی اقدار کی سچائی اور سنجیدگی مشکوک ہو جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے منفی رجحانات کو روکنے کے لیے دینی ادارے، علمائے کرام، اور والدین اپنی ذمے داری نبھائیں۔ سوشل میڈیا پر دین کی نمائندگی کرنے والوں کے لیے تربیتی ورکشاپس، اخلاقی ضابطہ کار، اور دینی رہنمائی کا نظام ہونا چاہیے تاکہ دین کا پیغام خلوص، سنجیدگی اور پاکیزگی کے ساتھ لوگوں تک پہنچے، نہ کہ موسیقی اور دکھاوے میں لپٹا ہوا۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا کا زہر: بچوں کی معصومیت اور دینی تربیت پر خطرناک حملہ
اسلام کے مقدس پیغام کو محض ویوز اور فالوورز کے لیے استعمال کرنا خطرناک ہے — یہ نہ صرف دین کا مذاق ہے بلکہ اس کی روح کے ساتھ ناانصافی بھی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم دین کو کیسے پیش کر رہے ہیں: اصلاح کے لیے یا تفریح کے لیے؟