تحریر: وقار نسیم وامق
کہتے ہیں دنیا کو امن کی ضرورت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا کو اب امن کی عادت نہیں رہی۔ شاید ہم امن کی خواہش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم نے جنگ کو معمول بنا لیا ہے۔ کوئی جنگ چھڑی تو امن کی پکار شروع ہو گئی، جنگ ٹلی تو پھر لڑائی کے نت نئے بہانے ڈھونڈنے لگے، کشمیر سے غزہ تک، یوکرین سے تہران تک، کرہ ارض جنگ زدہ ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت کم و بیش 110 مسلح تنازعات جاری ہیں، جنگ ایک صنعت اور ایک منافع بخش کاروبار ہے، اور امن؟ وہ بس ایک وقتی نعرہ ہے۔
یاد کیجیے، کورونا نے پوری دنیا کو ایک ساتھ جھنجھوڑا، دنیا سہم گئی، انسانیت تھم سی گئی۔ سڑکیں ویران، مسجدیں، گرجا، معبد خالی، طبیب اور مریض خوف میں لپٹے نظر آئے، ہم نے سیکھا بھی لیکن عمل نہیں کیا۔ ہم نے فطرت کا پیغام نہیں سنا ہم نے ویکسین بنائی لیکن ضمیر کو زندہ نہ کیا اور ہم نے اس لمحۂ سکوت کو سیکھنے کے بجائے سوالات میں ضائع کر دیا، کیا وائرس قدرتی تھا یا مصنوعی لیبارٹری سے آیا؟ گویا ہمیں “سبق نہیں، سازش” درکار تھی۔
کورونا کے بعد دنیا نے ایک مرتبہ پھر تیزی سے جنگی رفتار اختیار کی۔ یوکرین میں روس کا چڑھائی کرنا محض سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ نئے عالمی نظام کے جنم کا نعرہ بن چکا ہے۔ نیٹو کا دائرہ، اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل سب کچھ ایک سیاسی شطرنج میں پیادوں کی قربانی ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ آج انسانیت کی اجتماعی بے حسی کا المیہ بن چکا ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور محاصرہ نے اب تک 17,000 سے زائد معصوم بچوں کی جان لے لی ہے، یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ وہ خواب تھے جو اسکول کی دہلیز تک بھی نہ پہنچ سکے۔ غزہ پر انسانیت سوز اسرائیلی محاصرے سے خوراک، پانی، اور طبی امداد ناپید ہے اور اس ظلم پر ظلم یہ ہے کہ غزہ کے بھوکے پیاسے جب خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اسرائیلی گولی ان کا استقبال کرتی ہے، اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے: “غزہ میں بم خوراک سے زیادہ آتے ہیں” اگر یہ نسل کشی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ اگر یہ انسانیت کا قتل نہیں تو انسانیت کی تعریف از سرِ نو لکھنے کی ضرورت ہے۔
اسی دوران اسرائیل اور ایران کی کشیدگی نے مشرقِ وسطیٰ کو آگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر یکطرفہ بمباری کی امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا، ایران نے جواب دیا، لیکن ایک سوال زمین پر معصوموں کی لاشوں کے درمیان معلق رہ گیا، آخر کب تک؟
اب آئیے برصغیر کی طرف جہاں کشمیر میں جلتے مکان اور ننھے کفنوں کی تعداد اب فائلوں میں گنی جاتی ہے۔ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا پاکستانیوں کو پیغام، “روٹی کھاؤ، ورنہ میری گولی تو ہے ہی”، بیسویں صدی کی بدترین عسکری اشتعال انگیزیوں میں سے ایک ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں، برہنہ دھمکی ہے۔ وہ بھی ایک ایٹمی قوت کے حامل ہمسائے پاکستان کے خلاف، کیا یہ الفاظ اقوام متحدہ کی سماعتوں میں گونجے؟ نہیں، کیونکہ مظلوم کی صدائیں طاقتور کی میزوں پر بےوزن ہوتی ہیں۔
اسی پر بس نہیں، بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستان کے لیے پانی بند کرنے کے اعلانات بھی کر چکا ہے۔ وہ پانی جو قدرت کا عطیہ ہے، زندگی کی علامت ہے، جو نہریں چلاتا ہے، کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، وہ اب جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ کیا دنیا نہیں جانتی کہ پانی کی جنگ ایٹم بم سے زیادہ ہولناک ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ملک خدانخواستہ پیاس کو دشمنی میں بدل دے؟، بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا کہ “پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے اسے روکنا ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے”، لیکن دنیا خاموش کیوں ہے؟ کیونکہ مفاد، ضمیر کی آواز سے بلند ہے۔
معاشی طور پر بھی جنگوں نے دنیا کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ عالمی معیشت کو ہر سال 17.4 کھرب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے یہ وہ رقم ہے جس سے دنیا کے ہر بچے کو تعلیم، ہر مریض کو علاج اور ہر بے گھر کو چھت دی جا سکتی تھی لیکن ہم نے اسے بارود میں جھونک دیا۔
دنیا کے بڑے مذاہب کے پیغمبروں اور رہنماؤں نے اپنے اپنے وقت میں انسانیت کو امن، محبت اور رواداری کا پیغام دیا، ان کے اقوال اور تعلیمات آج بھی عالمی امن کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آئیے چند نمایاں پیغمبروں اور رہنماؤں کے امن سے متعلق پیغامات پر نظر ڈالتے ہیں،
اسلام – خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، “وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين” (الأنبياء: 107)
“ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا”، یہ آیتِ کریمہ آپ ﷺ کی عالمی امن پسندی کی الٰہی سند ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے، “مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں”۔ حضرت محمد ﷺ کی پوری سیرت امن، رحمت اور انسانیت سے محبت کا عملی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف امن کی تعلیم دی بلکہ اپنی زندگی میں ہر موقع پر اس کا مظاہرہ بھی فرمایا، فتح مکہ کے موقع پر آپٌ نے ارشاد فرمایا، “جاؤ، تم سب آزاد ہو” یہ وہ لمحہ تھا جب آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں پر مکمل غلبہ حاصل تھا لیکن آپ نے انتقام کے بجائے معافی کو ترجیح دی، “ یہی حقیقی امن ہے”۔
عیسائیت – حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا مرکزی پیغام محبت، صلح اور انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک ہے۔“مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں” (انجیل متی 5:9)، “تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے لیے دعا کرو” (انجیل متی 5:44)، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دشمن سے محبت اور بدی کے بدلے نیکی کی تعلیم دی جو امن کی بنیاد ہے۔
یہودیت – حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ظلم سے نجات دلائی اور تورات میں عدل، رحم اور امن کی تعلیمات دیں۔ “عدل کرو، رحم کرو اور اپنے خدا کے ساتھ فروتنی سے چلو” (میکاہ 6:8)
ہندو مت – بھگوان کرشن
بھگوان کرشن نے گیتا میں ارجن کو عدم تشدد، فرض شناسی اور روحانی سکون کا درس دیا، “امن وہی پا سکتا ہے جو خواہشات سے آزاد ہو، نفرت سے پاک ہو اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کرے” (بھگوت گیتا 2:70)
بدھ مت – گوتم بدھ
“نفرت سے نفرت ختم نہیں ہوتی، محبت سے ہوتی ہے۔ یہی ابدی قانون ہے”
بدھ مت کی بنیاد ہی کرونہ (رحم) اور اہنسا (عدم تشدد) پر ہے۔
سکھ مت – گرو نانک دیو جی
گرو نانک دیو جی کا پیغام امن، مساوات اور خدمتِ خلق پر مبنی تھا، “نہ کسی سے جھگڑا کرو، نہ دشمنی رکھو، بس انسانیت کے ساتھ جیو اور دوسروں کی خدمت کرو” (گرو گرنتھ صاحب، انگ 343)
یہ پیغامات صرف ایمان والوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت ان پیغامات پر عمل پیرا ہے؟ یا ہم صرف راکھ میں جلتی چنگاریوں کے تماشائی رہ گئے ہیں؟۔
قارئینِ کرام، دنیا کو اب “امن معاہدے” نہیں، امن کا ضمیر چاہیے۔ وہ ضمیر جو قوم، نسل، مذہب، مفاد سے بالاتر ہو۔ آج اگر ہم نے امن کی تحریک بیدار نہ کی تو کل امن کی قبر پر تاریخ نوحے نہیں لکھے گی صرف خاموشی دفن ہو گی، وہ خاموشی جو ایک انسان کے مرنے پر نہیں بلکہ انسانیت کے مرنے پر چھا جاتی ہے۔