(22 جون یوم وفات پر خصوصی تحریر)
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
برصغیر کی صوفیانہ ثقافت میں قوالی نہ صرف روحانیت کی ایک اہم شکل رہی ہے بلکہ یہ عوامی رابطے، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک موثر ترین صورت بھی رہی ہے۔ صابری خاندان، خاص طور پر غلام فرید صابری اور مقبول صابری، نے بیسویں صدی میں قوالی کو جو وقار، گہرائی اور قبولِ عام بخشا، وہ بے مثال ہے۔ ان ہی کی گود میں پروان چڑھنے والا امجد فرید صابری اس عظیم روایت کا روشن چراغ تھا، جو بدقسمتی سے ظلم و انتہا پسندی کی تاریکیوں میں بجھا دیا گیا۔
امجد فرید صابری نے صرف ایک گلوکار یا قوال کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک روحانی پیغام رساں کے طور پر بھی شہرت حاصل کی۔ انھوں نے نو سال کی عمر میں قوالی کی تربیت کا آغاز کیا اور بارہ سال کی عمر میں پہلی اسٹیج پرفارمنس دے کر صابری روایت کو ایک نئی نسل تک منتقل کرنا شروع کیا۔
ان کی آواز میں جو “تحریرِ قلب” تھی وہ مستند قوالوں کی وراثتی لے سے کہیں زیادہ ایک وجدانی کیفیت کی حامل تھی۔ انہوں نے “تاجدارِ حرم”، “بھر دو جھولی” اور “میرے حضور ﷺ کا چرچا” جیسے کلاسیکی کلام کو جس وقار اور فنی پختگی کے ساتھ نبھایا، وہ صرف گائیکی نہیں بلکہ روحانی تجربہ بن گیا۔
ان کا انداز نہ صرف ان کے والد غلام فرید صابری کی بازگشت تھا بلکہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایک موثر ترجمان بھی تھے۔ انھوں نے صوفی کلام کو نوجوان نسل تک ایسے انداز میں پہنچایا کہ وہ سننے والوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا۔
22 جون 2016ء کو امجد صابری کا کراچی میں قتل صرف ایک فرد کا قتل نہیں تھا، بلکہ یہ فن، ثقافت اور صوفی ورثے کے خلاف ایک کھلی دہشت گردی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قوالی، جو محبت، امن اور انسان دوستی کی نمائندہ تھی، ایک انتہا پسند سوچ کا نشانہ بن گئی۔
ان کے قاتلوں کا تعلق ایک شدت پسند تنظیم سے بتایا گیا، جنہوں نے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صوفی پیغام کی قبولیت شدت پسندی کے علمبرداروں کو ناقابل برداشت تھی۔
مزید المیہ یہ کہ قتل اس مقام پر ہوا جہاں ان کے والد کے نام پر سرنگ موجود تھی ، گویا یہ پیغام تھا کہ صابری ورثہ جس قدر بھی مضبوط ہو، خاموش کروایا جا سکتا ہے۔
امجد صابری کے قتل پر پاکستان بھر میں رنج و الم کی فضا چھا گئی۔ ہزاروں افراد کی آخری رسومات میں شرکت، سیاستدانوں، فنکاروں، دانشوروں اور عوام کا شدید ردعمل اس بات کا ثبوت تھا کہ امجد صابری صرف ایک قوال نہیں، بلکہ قوم کی روحانی آواز بن چکے تھے۔
بھارت میں بھی ان کے قتل پر گہرا افسوس اور مذمت دیکھنے میں آئی۔ یہ اس حقیقت کی غمازی ہے کہ صوفی پیغام سرحدوں سے ماورا ہو کر دلوں کو جوڑتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے، اسی پیغام کو مٹانے کی سازش کامیاب ہو گئی۔
امجد فرید صابری کو بعد از مرگ حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ حسنِ کارکردگی اور بعد ازاں 2018ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ اگرچہ یہ اعزازات ان کی خدمات کا اعتراف ہیں، مگر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر ریاستی سطح پر صوفی روایت کو یہ مقام حاصل ہے تو ان کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟
امجد صابری کے قتل نے یہ سوال شدت سے اٹھایا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں صوفی روایت کو ثقافتی بنیاد مانا جاتا ہے، وہاں صوفی فنکاروں کو تحفظ کیوں حاصل نہیں؟ اس واقعے نے ریاستی پالیسیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجنس نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔
ایک ایسی شخصیت جو روحانیت کا پیغام دے رہی ہو، جو عوام میں مقبول ہو اور جو ریاستی سطح پر معتبر سمجھی جائے ، اگر وہ اس قدر غیر محفوظ ہو تو پھر عام شہری کا تحفظ کہاں ممکن ہے؟
اگرچہ امجد صابری کے قتل نے ایک خلا پیدا کیا، لیکن ان کی آواز، ان کے نعتیہ کلام اور ان کی فنی میراث آج بھی زندہ ہے۔ یوٹیوب، اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور عوامی یادداشتوں میں ان کا فن ایک تسلسل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ان کے قتل نے یہ بھی ثابت کیا کہ صوفی پیغام آج بھی انتہا پسند سوچ کے خلاف ایک مضبوط مورچہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف امجد صابری جیسے فنکاروں کو یاد رکھا جائے، بلکہ ان کے ورثے کی فکری، ثقافتی اور سیکیورٹی اعتبار سے حفاظت کی بھی جائے