اسلا م آباد(روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکیل اکرام چوہدری میں تلخ کلامی ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے سوال کیا کہ ملک بھر میں کتنے گوردوارے ہیں؟ جس پر وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ موجودہ مقدمہ 6 گوردواروں کا ہے، ملک بھر کی تفصیل گزشتہ سماعتوں میں جمع کرا چکے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ حقائق کیوں چھپانا چاہتے ہیں؟ سچ عوام کے سامنے آنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟َ جس پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکیل نے کہا کہ تمام حقائق عدالت کو دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کا کچھ تو احترام کریں جس پر اکرام چوہدری نے کہا کہ بطور وکیل عدالت بھی میرا احترام کرے۔
چیف جسٹس نے وکیل اکرام چوہدری کو روسٹرم سے ہٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اخلاق تو ختم ہی ہو گیا ہے۔
وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ وکالت کرتے ہوئے 35 سال ہوگئے ہیں، آپ سمجھتے ہیں اخلاقیات صرف آپ کو ہی آتی ہیں، بار کا سینئر رکن ہوں مجھے بھی عزت دی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں آپ سے نہیں متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین سے بات کرنی ہے۔
جس کے بعد متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں فعال گوردواروں کی تعداد 19 ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ تمام گوردواروں کی تفصیلات اور تصاویر ویب سائٹ پر کیوں نہیں ڈالتے؟
میری بات پر سر سر کیوں کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے متروکہ وقف املاک بورڈ حکام کی سرزنش کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انگریز کا دور ختم ہو چکا ہے اب سر سر نہ کیا کریں، غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔
عدالت نے تمام گوردواروں اور مندروں کی تصاویر سمیت مکمل تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کرنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مخصوص اقلیتوں اور عوام کی پراپرٹی ہے، ساری زمینیں ہتھیائی جاتی ہیں اس لیے حقائق چھپائے جا رہے ہیں، پہلے عدالت پر چڑھائی کر دو پھر جج کو سوال بھی نہ پوچھنے دو۔