لندن(روشن پاکستان نیوز) معروف سرائیکی گلوکار ذیشان روکھڑی کی جانب سے ان دنوں برطانیہ میں ہونے والی مختلف تقاریب کے دوران پیسے نچھاور کیے جانے اور چادر کے استعمال پر بھی سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید تنقید سامنے آ رہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ان تقریبات میں لوگوں کی جانب سے پیسے اچھالے جا رہے ہیں جو کرنسی کی کھلی بے حرمتی کے مترادف ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض خواتین پروگراموں کے دوران ننگے سر ہو کر ذیشان روکھڑی کو چادریں پہنا رہی ہیں، جبکہ ایک ویڈیو میں ذیشان روکھڑی خود چادر کو کسی خاتون کے سر پر رکھنے کے بجائے محض علامتی طور پر پہناتے نظر آتے ہیں۔ اس عمل پر صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ اسلامی معاشرے میں چادر دینا عزت، حیا اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے، جس کا اصل مقصد سر پر پہنایا جانا ہوتا ہے، نہ کہ نمائشی انداز میں استعمال کرنا۔
مزید پڑھیں: لیہ کے مجسٹریٹ ذیشان غزلانی کی سادگی اور ایمانداری کی مثال، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو نے تہلکہ مچادیا
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چادر اور کرنسی دونوں ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار سے جڑی ہوئی علامات ہیں، جنہیں تفریح، نمائش یا اسٹیج سرگرمی کا حصہ بنانا نہ صرف غلط پیغام دیتا ہے بلکہ نئی نسل کے لیے بھی منفی مثال قائم کرتا ہے۔ عوامی رائے کے مطابق فنکاروں اور منتظمین کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو مذہبی اور اخلاقی حساسیت کو مجروح کریں۔
اس رجحان پر عوامی، سماجی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پیسہ رزق ہے اور رزق کو اس طرح بے توقیر کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ معاشرتی اقدار کے بھی منافی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ایک طرف ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت عروج پر ہے، جبکہ دوسری جانب خوشی کے مواقع پر پیسے اس طرح ضائع کرنا ایک تلخ تضاد کی عکاسی کرتا ہے۔ کئی صارفین نے سوال اٹھایا کہ اگر یہی رقم کسی غریب، مستحق یا فلاحی مقصد کے لیے استعمال کر لی جائے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پیسے کی عزت کرو، مگربرطانیہ میں بحثیت مسلمان ذیشان روکھڑی کیا میسج دے رہاہے؟ یہ دوہرا معیار کب ختم ہوگا؟” ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ “رزق اللہ کی نعمت ہے، اسے پاؤں تلے روندنا ناشکری ہے، خوشی منانے کے لیے فضول خرچی ضروری نہیں۔”
ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ ماضی میں یہ روایت سادگی تک محدود تھی، جبکہ آج کل سوشل میڈیا پر نمائش اور دکھاوے کی دوڑ نے اسے ایک منفی اور غیر مہذب شکل دے دی ہے۔
معاشرتی ماہرین کے مطابق شادیوں اور مختلف تقاریب میں اسراف اور پیسے نچھاور کرنے کا رجحان دراصل سماجی دباؤ اور مقابلہ بازی کا نتیجہ ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر دکھاوا کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کرنسی کو تفریح اور تماشے کا ذریعہ بنانے سے نئی نسل کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پیسے کی کوئی اہمیت نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
عوامی سطح پر یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ شادی ہالز، ایونٹ مینیجرز اور فنکاروں کو اس طرح کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کئی خواتین صارفین نے رائے دی کہ خوشی کے مواقع پر اگر واقعی خوشی بانٹنی ہے تو فلاحی کام کیے جائیں، جیسے غریبوں کو کھانا کھلانا، بچوں کے لیے کتابیں یا کسی خیراتی ادارے کو عطیہ دینا۔
مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی اس عمل پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ اسلام میں اسراف اور نعمتوں کی بے قدری کی سخت ممانعت ہے، اور رزق کو پاؤں تلے روندنا یا اسے محض نمائش کا ذریعہ بنانا دینی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق ایسے مناظر معاشرے میں غلط مثال قائم کرتے ہیں اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔
اگرچہ فی الحال اس حوالے سے کوئی واضح قانونی پابندی موجود نہیں، لیکن سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی تنقید ظاہر کرتی ہے کہ عوام اب اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ کئی صارفین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آگاہی مہم کے ذریعے شادیوں میں سادگی، حیا اور ذمہ داری کے کلچر کو فروغ دیں۔











