علامہ اقبال کی بچوں کے لیے نظم ’’ایک گائے اور بکری‘‘

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے بچوں کے لیے اردو میں جو چند نظموں کا انتخاب کیا ہے ان میں اخلاقی تعلیم، تہذیبی بصیرت اور انسانی سماج کی پیچیدگیوں کو نہایت سادہ، پُراثر اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔ ایسی ہی ایک نظم ’’ایک گائے اور بکری‘‘ ہے جو دراصل مثنوی مولانا رومیؒ کے اثرات سے ماخوذ ہے اور اقبال کے حکیمانہ طرزِ فکر کا اظہار ہے۔ یہ نظم اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی مشہور کتاب “بچوں کے اقبال” سے ماخوذ ہے، جس میں علامہ نے آسان پیرایہِ بیان میں عظیم انسانی و اخلاقی اقدار کو اجاگر کیا ہے۔

یہ نظم صرف دو جانوروں کی گفتگو ہی نہیں بلکہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم، غلامی، شکرگزاری اور اخلاقی شعور کا گہرا استعارہ بھی ہے۔ نظم میں دو کردار ہیں یعنی گائے اور بکری۔ گائے جو جسمانی و نفسیاتی جبر کی علامت ہے، بکری جو شکر، قناعت اور حکمت کی علامت ہے
گائے نے اپنے شکوے میں معاشرتی جبر کی نمائندگی کی ہے۔ نظم کے آغاز میں گائے بکری سے اپنی دُکھی داستان بیان کرتی ہے۔ گائے کی زبان میں شکوہ ہے، فریاد ہے اور مظلومیت کی گونج ہے مثلاً:
“آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے”
گائے انسان سے ناشکری اور استحصال کی شکایت کرتی ہے۔ وہ اپنی خدمات (دودھ دینا، بچوں کی پرورش) گنواتی ہے، مگر بدلے میں ظلم سہنے کا گلہ کرتی ہے۔ یہاں اقبال نے استعاراتی انداز میں اُس مظلوم طبقے کو پیش کیا ہے جو انسانی سماج میں استحصال کا شکار ہے یعنی وہ جو کام کرتا ہے، مگر عزت نہیں پاتا۔
اس کے برعکس بکری کا جواب حکمت اور شکر کی علامت ہے۔ بکری کا مکالمہ انتہائی اہم ہے۔ وہ گائے کے شکوے کو سن کر نرم انداز میں کہتی ہے:
“بات سچّی ہے بے مزا لگتی
مَیں کہوں گی مگر خدا لگتی”
یہاں بکری کا کردار عقل مند، متوازن اور اخلاقی فکر رکھنے والے انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔ بکری کی گفتگو میں شکر گزاری، حسنِ نظر اور مثبت سوچ ہے۔ وہ یہ باور کراتی ہے کہ انسان کے ساتھ رہنے کے کچھ نقصانات ضرور ہیں، مگر اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں۔ سر چھپانے کو جگہ، خوراک کی فراہمی، حفاظت اور پرورش وغیرہ یہ سب کچھ انسان فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں اقبال ایک نظریۂ حیات دے رہے ہیں۔ محض شکایت نہیں، بلکہ شعور اور شکر کا امتزاج اختیار کرو۔
گائے جع استحصال کا شکار ہے جوکہ مظلوم طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔
بکری جوکہ شکر گزار، قانع اور باشعور فرد کی نمائندگی کرتی ہے۔
انسان جوکہ حکمران اور بالادست طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔
چراگاہ، سایہ، ہوا جوکہ تہذیبی و تمدنی تحفظ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اقبال کی یہ نظم ان معنوں میں سیاسی اور سماجی شعور کو جنم دیتی ہے کہ یہ بچوں کو محض لفظی کہانی نہیں دیتی بلکہ ان کے شعور میں ظلم و عدل، خیر و شر اور قناعت و ناشکری کے مفاہیم بٹھاتی ہے۔

نظم کی ہیئت مثنوی ہے، جو مکالماتی انداز میں دو کرداروں کے درمیان آگے بڑھتی ہے۔
سلیس زبان اور سیدھی ترکیبیں بچوں کے لیے قابلِ فہم اور جاذبِ توجہ ہیں۔
تکرار اور قافیے کا استعمال شعر کی روانی بڑھاتا ہے۔
حکمت کے موتی آسان زبان میں پروئے گئے ہیں، جیسے:
“قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو”
یہ شعر ایک مکمل اصولِ زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔
علامہ اقبالؒ کی نظم ’’ایک گائے اور بکری‘‘ نہ صرف بچوں کی تربیت کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک مکمل اخلاقی و سماجی تمثیل بھی ہے، جس میں اقبال نے استحصال اور شکر گزاری، غلامی اور تحفظ اور طبقاتی رویّوں پر نہایت عمیق انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

یہ نظم آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اپنے وقت میں تھی، کیونکہ یہ نصیحت، خود شناسی اور قناعت کے اسباق پر مبنی ہے جو ہر دور میں انسانی معاشرے کی ضرورت ہیں۔

“اقبالؒ کی نظر صرف بچپن پر نہیں، بچپن کے ذریعے قوم کے مستقبل پر ہے۔”
بچوں کے لیے اقبال کی نظم ایک گائے اور بکری پیش خدمت ہے۔
*
کسی ندّی کے پاس اک بکری
چَرتے چَرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھُک کر اُسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھّے ہیں
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قِسمت بُری ہے، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو مَیں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو مَیں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لِکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے
دُودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کِن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں مَیں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں مَیں
بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے
میرے اللہ! تری دُہائی ہے
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گِلہ نہیں اچھّا
بات سچّی ہے بے مزا لگتی
مَیں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دَم سے ہین
لُطف سارے اسی کے دَم سے ہیں
اس کے دَم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی کہ آزادی!
سَو طرح کا بَنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گُزران سے بچائے خُدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گِلا اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو
گائے سُن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گِلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

مزید خبریں