ٹرمپ کی ایران مخالف دھمکیوں پر عالمی ردعمل، ثالثی کے بجائے فریق بننے پر تنقید کا سامنا

واشنگٹن/تہران(روشن پاکستان نیوز)  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف سخت بیانات اور تہران سے انخلا کی وارننگ نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے، جبکہ امریکا اور دیگر ممالک کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کے رویے پر شدید تنقید کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا نہ کہ ایران-اسرائیل تنازعے میں کسی ایک فریق کی حمایت کر کے صورت حال کو مزید بگاڑنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں ایران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “میں کہوں گا کہ ایران یہ جنگ نہیں جیت رہا۔ انہیں فوراً مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔” انہوں نے تہران میں موجود امریکی اور غیر ملکی شہریوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی صورت حال ہر لمحہ مزید خراب ہو رہی ہے۔

سابق صدر نے ایران پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ایٹمی معاہدے پر دستخط کرے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا: “کتنی شرم کی بات ہے کہ انسانی جانوں کا اتنا ضیاع ہو رہا ہے، ہمیں یہ سب روکنا ہوگا۔” ٹرمپ نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائیں گے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں، کیونکہ یہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھانے پر زور دیا، جس پر عالمی تجزیہ نگاروں نے خدشات ظاہر کیے کہ اس عمل سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

ٹرمپ کے ان بیانات پر عوام کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیا۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو جنگ بھڑکانے کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک صارف نے لکھا: “ٹرمپ دنیا کو امن دینے کے بجائے آگ میں جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا امریکا کو ہر جنگ میں فریق بننا ضروری ہے؟” ایک اور شہری نے تبصرہ کیا: “ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پہلے ہی قابو سے باہر ہے، ایسے میں ٹرمپ کا بیان صرف تیل پر پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔” ایک اور صارف نے لکھا: “سابق صدر کو ثالثی کی بات کرنی چاہیے، نہ کہ ایسی دھمکیاں دینا جو ایٹمی جنگ کا دروازہ کھول سکتی ہیں۔”

مزید پڑھیں: ایران بات کرے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ڈونلڈ ٹرمپ

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اس قسم کے بیانات عالمی سفارت کاری کو کمزور کر سکتے ہیں اور ایران کے ساتھ کشیدگی کو سفارتی حل کے بجائے فوجی تصادم کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سفیر نے کہا: “ایسی زبان جس میں دھمکی ہو، مذاکرات کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ دنیا کو ٹھنڈے دماغ سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ جذباتی بیانات دینے کی۔” ٹرمپ کے بیانات نے ایک بار پھر ان کی خارجی پالیسی کے انداز پر سوالات اٹھا دیے ہیں، اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ امن کے لیے عالمی سطح پر زیادہ سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویے کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں