هفته,  21  ستمبر 2024ء
بنگلا دیش میں طلبہ نے حسینہ واجد کے ’’اقتدار‘‘ کو ’’فرار‘‘ میں کیسے بدلا؟ مکمل تفصیل جانیے

ڈھاکہ (روشن پاکستان نیوز) جولائی میں بنگلا حکومت کے ملازمتوں کے لیے متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا اختتام وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونے فوج کی جانب سے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کرنے پر ہوا۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق 76 سالہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کرنے والے مظاہروں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں کم از کم 300 افراد مارے گئے۔یہاں پانچ اہم تاریخیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کس طرح مظاہروں نے تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں حکومت کو گرایا۔
یکم جولائی: ناکہ بندی کا آغاز
یونیورسٹی کے طلبہ نے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بند کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں تاکہ پبلک سیکٹر کی ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سکیم کا استعمال حسینہ واجد کی حکمران عوامی لیگ کے وفاداروں کو نوازنے کے لیے کیا گیا۔
حسینہ واجد نے جنوری میں حقیقی مخالفت کے بغیر ووٹنگ کے بعد وزیراعظم کے طور پر پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالب علم ’اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘
16 جولائی: تشدد میں شدت
مظاہروں میں پہلی اموات ریکارڈ کی گئیں اور جھڑپوں میں چھ افراد مارے گئے۔ ایک دن بعد جب ڈھاکہ میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں نے ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسائیں اور اینٹوں سے حملہ کیا۔
حسینہ واجد کی حکومت نے ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا۔
18 جولائی: وزیر اعظم نے سرزنش کی
طالبات نے حسینہ کی طرف سے آفر کو مسترد کر دیا، اس کے ایک دن بعد جب انہوں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ احتجاج میں ہونے والے ہر ’قتل‘ کی سزا دی جائے گی۔مظاہرین ’ڈکٹیٹر کو نکالو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور سرکاری نشریاتی ادارے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر اور درجنوں دیگر سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر رہے تھے۔ حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا۔
جھڑپوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جو چوبیس گھنٹے کرفیو اور فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود جاری رہے۔
21 جولائی: سپریم کورٹ کا فیصلہ
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ، جسے ناقدین حسینہ کی حکومت کی ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھتے ہیں، نے ملازمتوں کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرانے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔
لیکن اس فیصلے سے مظاہرین خوش نہ تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف 1971 کی آزادی کی جنگ سے ’آزادی کے جنگجوؤں‘ کے بچوں کے لیے مخصوص ملازمتیں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔
5 اگست: حسینہ کا فرار
حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈھاکہ سے فرار ہوئیں جب ہزاروں مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر جشن منا رہے تھے، کچھ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی چھت پر رقص کر رہے تھے۔
ان کی ڈرامائی رخصتی مظاہروں کے مہلک ترین دن کے ایک دن بعد ہوئی ہے جس میں ملک بھر میں کم از کم 94 افراد مارے گئے تھے، جن میں سے بہت سے حسینہ واجد کے حامیوں کے ساتھ لڑائیوں میں مارے گئے تھے۔
کئی معاملات میں فوجیوں اور پولیس نے احتجاج کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کی جیسا کہ پچھلے مہینے ریلیوں کے دوران ہوا تھا۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور فوج عبوری حکومت بنائے گی۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ، مظاہرین نے شیخ مجیب کی ذاتی رہائش گاہ کو آگ لگادی

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News