کوالالمپور (نیوزڈیسک)ملائیشیا میں اسرائیل سے منسلک ہونے کے الزام کا سامنا کرنے والے معروف برانڈز کے بائیکاٹ کی مہم کے باعث ان کی آمدنی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد ملائیشیا میں ان مشہور برانڈز کی مصنوعات کی مقامی مارکیٹ میں فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
گنجان آباد فلسطینی علاقے غزہ میں اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں 30 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 70 ہزار سے زائد شہری زخمی بھی ہوئے جبکہ ہزاروں ملبے تلے لاپتہ ہیں۔
مزیدپڑھیں:اچکزئی کو نامزد کر کے بانی پی ٹی آئی نے زبردست پیغام دیا ہے، علی محمد خان
غزہ پر بڑھتے حملوں کے بعد ملائیشیا کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے ایسی مغربی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے کے بائیکاٹ کی حمایت کی ہے جو ان کے بقول اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں یا غزہ پر اس کے حملے میں سہولت فراہم کر رہی ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم اکثریتی ملک میں اپنے کاروبار اور منافع میں کمی کا باضابطہ اعتراف کرنے والی کمپنیوں میں نئے نام کا اضافہ سٹاربکس کی صورت میں ہوا ہے۔ امریکہ کی اس کافی چین نے مقامی ملائیشین پیرنٹ کمپنی برجایا فوڈز کے ہمراہ یہ تسلیم کیا کہ بائیکاٹ سے اس کی آمدنی میں 40 فیصد کمی دیکھی گئی۔
ملائیشیا سٹاک ایکسچینج میں فروری کے وسط میں فائلنگ میں کمپنی نے 31 دسمبر کو ختم ہونے والی دوسری سہ ماہی کے لیے 182 ملین رنگٹ (38.47 ملین ڈالر) کی آمدنی کی اطلاع دی، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے 295 ملین رنگٹ 62 ملین ڈالر) سے کم تھی۔
اس کے ایک ہفتے کے بعد ایک انسٹاگرام پوسٹ میں سٹاربکس ملائیشیا نے کہا کہ بائیکاٹ کے نتیجے میں اس کے 400 سٹورز میں سے کچھ میں ’تشدد اور توڑ پھوڑ‘ کی کارروائیاں ہوئیں اور اس کے کچھ عملے پر حملہ ہوا۔ تاہم کمپنی نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔
رواں ہفتے اس کافی چین کمپنی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل میں اس کا کوئی سٹور نہیں اور وہ اسرائیلی حکومت یا فوج کو مالی مدد فراہم نہیں کرتی۔
کمپنی نے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹے بیانات کے باوجود ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ ہم اپنے منافع کو کہیں بھی کسی حکومتی یا فوجی آپریشن کے فنڈز میں استعمال نہیں کرتے، اور نہ کبھی ایسا کیا۔