آج دنیا جس حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی طرف بڑھ چکی ہے۔ ان حقائق کو چھپانے کیلئے خود غرض اور مفاد پرست حکمران سات پردوں کے پیچھے چھپانے میں سالہا سال سے لگے تھے۔ جس کیلئے وہ مختلف طریقوں کو استعمال کرتے رہے۔ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے حکمرانوں نے ایسے ایسے جھال بچھائے تھے۔ جو عام آدمی کی سمجھ سے مخفی اور نظر سے دور تھے۔ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کئی ممالک میں اپنی مرضی کے حکمران متعین کئے جاتے تھے۔ جہاں ممکن نہیں ہوتا وہاں پر فوجی حکمرانوں کو سیاسی لبادے کے ساتھ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اور جن سیاسی رہنماؤں سے کہیں ڈر خوف کا عنصر پایا جاتا تھا۔ انکو کسی نہ کسی بہانے مروا دیا جاتا تھا۔ یہ سارا کھیل روس و امریکہ کے سرد جنگ کے خاتمے تک جاری رہا ۔ لیکن سپر پاور کے زعم میں امریکہ یہ بھول چکا تھا کہ دنیاوی نظام جھوٹ اور ظلم کے من مانے پیمانوں کے استعمال کرنے کبھی نہیں چل سکتا۔ دیر یا بہ جلد سپریمیسی کے زعم میں ڈھائے جانے والے مظالم کا اثر الٹ بھی سکتا ہے۔ جو انصاف کے لایعنی لفاظی کے ساتھ بے انصافی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ آج دنیا کے سامنے سے جھوٹ اور ظلم کی خودساختہ کھڑی کی گئی تمام دیواریں دیواری گر چکی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام ایک طرف اور امریکی سپر پاور کی تمام حمایت یافتہ قوتیں دوسری طرف ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہیں۔ جس کا سہرا حماس کے ایک چھوٹے سے چند ہزار پر مشتمل گروہ کے سر جاتا ہے۔ جس کو ابتداء میں لوگ خودکشی قرار دیتے تھے۔ لیکن حالات و واقعات اور انکی ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ فلسطین کے نہتے عوام نے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل اپمان رکھنے والوں خداوند کریم کبھی تنہا نہیں چھوڑتا اور نہیں مایوس کرتا ہے۔ بلکہ ان کے ایمان کی پختہ کا بینازی سے امتحان ضرور لیتا ہے۔ اسرائیل جس کو دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے تمام ایٹمی طاقتوں کی ہر قسم کی مدد اور حمایت اسرائیل کو حاصل تھی۔ اور اسرائیل مخالف ملکوں کا منہ بھی بند رکھنے کا بندوبست کرتے تھے۔ جن کو اپنے عوام کی تائید بھی ان کے جھوٹے بیانات کی وجہ حاصل تھی۔ جن کو وہ سالہا سال سے اندھیرے میں رکھتے رہے۔ لیکن آج انھی حکمرانوں کو انھی کے عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ سب سے پہلے امریکی عوام اور حکومت کے درمیان اسرائیل کی حمایت کرنے پر تنازعہ کھڑا ںوا۔ فلسطینی عوام کے یدریغ قتل عام کے قصے منظر عام پر آگئے۔ اس عدم اعتماد کی ابتدا میں امریکی حکومت نے زیادہ توجہ اسلئے نہیں دی کہ عوام آنکے جھوٹ اور سچ پر یقین کرنے کے قائل ہوتے رہے۔فرانس کی حکومت نے اعلان کیا کہ اسرائیل مخالف لوگوں کو فرانس سے بیدخل کیا جائگا۔ جبکہ عوام پر انکی دھمکی کا خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ عوام فلسطینی عوام پر مظالم ڈھانے پر خاموش نہ رہ سکے اور منظم طریقے سے سڑکوں پر نکل آئے۔ جو عوام اور حکومت فرانس کے درمیان واضح تفریق نظر آیا۔ فرانسیسی حکومت نے عوامی غیض و غضب کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیکر اسرائیل کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کرکے ملک کو انتشار سے بچا نے میں کامیاب ہوگئے۔ائیر لینڈ کی حکومت نے کمال بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی ریاست تسلیم کرکے فلسطینی سفیر کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا ۔ جس کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ۔ اس کا اثر یورپی ممالک میں عوام اور حکومتوں پر بھی پڑا۔ اور بہت سے ممالک میں فلسطین کے ساتھ اظہار یک جہتی کے سلسلے میں جلوس اور جلسوں کا انعقاد ہونے لگا۔ برطانیہ میں حکومت اور عوام ایک دوسرے کے مد قابل کھڑے ہوئے۔ عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطین کے ساتھ اور حکمران اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر ائے۔ جسم اثر یہ ہو ا کہ عوام کی رائے کو کسی حد تک بر طانوی حکومت کو تسلیم کرنی پڑی۔ حالانکہ برطانوی پرائم منسٹر نےاسرائیل کو اسلحہ بھیجے جانے والے جہاز میں اظہار یکجہتی کے طور اسرائیل کا دورہ کیاتھا۔ اب برطانوی حکومت کو بھی اپنے عوام کی مخالفت کا سامنا ہے۔کینیڈا نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحہ بھیجنا بھی بند کرلیا۔ آسٹریلوی حکومت کو بھی عوامی رائے کا احترام کرنا پڑا اسرائیل کی مدد کرنے سے باتھ کھینچ لیا۔ اسلامی ممالک میں سے لبنان، شام، یمن، عراق اور ایران نے کھل کر فلسطینیوں کا ہر میدان میں ساتھ دیا۔ وہ اسلحہ کی فراہمی یا مجاہدین کی فراہمی اور اسرائیل پر متواتر حملے کرتے رہے ہیں۔ جو آج تک جاری ہیں۔ جس کے فلسطین کے حق میں دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ایک طرف اسرائیل کو کئی محاذوں پر جنگ میں مصروف رکھنے سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے کمی کا باعث بنا جبکہ دوسری طرف فلسطینی مجاہدین کو اسلحہ کی ترسیل بھی جاری رہی۔ حالانکہ حماس کے ابتدائی حملوں کے دوران ایسا دکھائی دے رہاتھا کہ یہ جنگ چند دنوں میں حماس کی شکست اور اسرائیل کی فتح کر منتج ہوگی۔ لیکن تمام دفاعی اور عسکری تجزیہ کاروں کے اندازے صریحاً غلط ثابت ہوئے۔ جب تک خزب اللہ نے عملی طور پر اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ بہت سے لوگ شکوک و شبہات کا شکار تھے ۔ کیونکہ حزب اللہ لبنان شام اور ایران کی فلسطین کے حق میں زیا دہ تر زور بیانات کی حد تک تھا۔ جبکہ بعد میں انھوں نے بتدریج جنگی محاذ کو کھولنا شروع کرکے اپنے کئے گئے بیانات کو سچ ثابت کر دکھایا۔ یمن جو اس جنگ سے کوسوں دور تھا۔ انکا تعلق بھی فلسطین اسراییل جنگ میں شمولیت اختیار کرنے پر دنیا بھر میں حیران کن تھا۔ لیکن یمن کے مسلم حکومت نے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مکمل طور پر ادا کیا۔ کہ اسرائیل کی مدد کو بھیجے جانے والے ساز وسامان سے بھرے بحری جہازوں کا نہ صرف راستہ روکا بلکہ امریکہ و برطانیہ جیسے مستحکم دفاعی ملکوں کی دھمکیوں کی پرواہ بھی نہیں کی اور انکے بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنائے رکھا۔ جس کے بدلے میں یمن کو انکے فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔لیکن یمنی عوام اور فوج سیسہ پلائی دیوار کی آج بھی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطین کے پڑوس میں اردن اور مصر دونوں ممالک نے کو ئی قابل ذکر قدم آج تک فلسطینیوں کے حق میں نہیں اٹھایا۔ مصری حکومت اور عوام اگرچہ آج تک ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اردن کے بادشاہ کو اپنی جان اور حکومت کے لالے پڑے ہیں۔ وباں پر عوام فلسطین کے حق میں اسرائیل و امریکہ اور انکے حمایتی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے جلوسوں کی شکل میں دھرنا دیئےبیٹھے ہیں ۔مسلح جھڑپوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ پولیس عوام کی پکڑ دھکڑ اور ہاتھاپائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ شہنشاہ اردن بھاگ کر واشنگٹن سے نئے احکامات حاصل کر رہا ہے۔ جو بھی ہو حالات اسکے کنٹرول سے باہر جو رہے ہیں۔قطر کا رول اگر چہ سپین اور اسرائیل کے درمیان مصالح کنندہ گان ہے۔ ابھی تک وہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ جس کا پلڑا فلسطین کے حق میں بھاری نظر آرہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمران اپنے سابقہ روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے امریکہ کی ہاں میں جان ملائے جا رہے ہیں جو انکے لئے مستقبل میں عوامی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ چاہے جتنا بھی تشدد کرکے عوام کو روکنے یا مطمئن کرنے کی کوشش کیوں نہ کریں۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب ، چین، روس، ایران اور پاکستان ایک ایسے راستے پر نظر آر ہے ہیںجو نظر تو فلسطین کی طرف جاتا آرہاہے۔ لیکن واضح نہیں ہے۔ جو شائد کسی مستقبل کی خاص پالیسی کا حصہ ہوکیونکہ یہ تمام ممالک کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ جس کیلئے بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ایک معمولی غلطی کا نتیجہ خطے میں جنگ میں کثیر التعداد ہلاکتوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اور مسلسل خاموشی مسلمانوں میں سخت بے چینی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ عوامی صبر کا پیمانہ اسرائیلی فوج کے مظالم پر بھرتا ہوا چھلکنے کے قریب نظر آرہا ہے۔ جس کا سدباب کرنا وقت کا اہم ترین تقاصہ ہے۔ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے حمایتی خود اندرونی طور دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ عوام ایک طرف اور حکمران دوسری طرف۔ جبکہ اسرائیل کے اندرونی حالات بھی عوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جو نیتن یاھو کی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ نیتن یاہو کے گھر پر مسلح حملے اور وہاں کی انتظامیہ اور عوام کے درمیان جھڑپیں اس آگ کو مزید بھڑکنے کا عندیہ دے رہے ہیںکہ بہت جلد نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ لوگ فوج میں بھرتی ہونے سےکترا رہے ہیں۔ کیونکہ اسرائیلیوں کو پہلی بار کسی جنگ کی وجہ فوجیوں اور اپنے عوام کے لاشوں کو دیکھنا پڑا ہے۔ جس سے پہلے انہیں مردار ہونے کا ایسا تلخ ترین تجربہ نہیںتھا۔ انکا اپنے دفاعی نظام پر سے بھروسہ ختم ہوچکا ہے۔