جمعرات,  14 نومبر 2024ء
حلف اٹھانے سے پہلے پاکستانی حکومت کا ٹرمپ سے رابطہ! اصل کہانی کیا؟ تجزیاتی رپورٹ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان کی حکومت نے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم سے جلدی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس نئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مضبوط اور مؤثر تعلقات قائم کیے جا سکیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ براہِ راست رابطہ کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے مفادات کو امریکی پالیسی میں کسی بھی ممکنہ تبدیلی سے بچایا جا سکے اور پاکستان کی موجودہ حکومت اپنے مستقبل کے لیے امریکی حمایت حاصل کر سکے۔

پاکستان کی حکومتی حکمت عملی

پاکستانی حکام نے امریکی انتخابی نتائج کے فوراً بعد ہی رابطے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے خود ٹرمپ کو ان کی جیت پر مبارکباد دی اور یہ پیغام دیا کہ پاکستان امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ امریکی حکومت کے ساتھ ایک مستحکم اور تعاون پر مبنی تعلق قائم کیا جائے، جو دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہو۔

پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن میں یہ کوشش کرے گا کہ ٹرمپ کی ٹیم سے کسی ٹاپ افسر یا خود ٹرمپ کے ساتھ فون پر بات کی جا سکے تاکہ باہمی تعلقات کا ایک مثبت آغاز کیا جا سکے۔ یہ عمل اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح امریکی حکومت کے ساتھ تعلقات میں کمی نہیں آنے دینا چاہتا۔

ٹرمپ کے رویے کا تجزیہ

ٹرمپ نے 2016 میں امریکی انتخابات جیتنے کے فوراً بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی۔ ٹرمپ کی شخصیت اور ان کا غیر روایتی اندازِ سیاست ایک متنازعہ موضوع رہا ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان کو امید ہے کہ وہ بائیڈن کی طرح روایتی سرد مہری کا شکار نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس، وہ اپنے متبادل طور طریقے اپناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ جلد تعلقات استوار کرے گا۔

اگرچہ بائیڈن نے پاکستانی حکام سے کبھی رسمی بات چیت نہیں کی، لیکن ٹرمپ نے ہمیشہ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں عالمی رہنماؤں سے باقاعدہ رابطہ کیا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستانی قیادت کا یہ خیال درست ہے کہ ٹرمپ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ جلد رابطہ کریں گے۔

پاکستان کے مفادات اور چیلنجز

پاکستان کے لیے ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ایک بڑا چیلنج یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کی خاطر پاکستان پر مزید تجارتی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور میں واضح کیا تھا کہ وہ اپنے ملک کی مصنوعات پر 10 سے 20 فیصد تک کسٹم ڈیوٹیز بڑھا سکتے ہیں، جس سے پاکستان کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

اس کے علاوہ، ٹرمپ کا ایران اور چین کے حوالے سے سخت موقف بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ایران اور چین دونوں ہی پاکستان کے اہم ہمسائے ہیں، اور ان دونوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کے گہرے اقتصادی، تجارتی، اور اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ ٹرمپ کی چین کے خلاف سخت پالیسی پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے کیونکہ چین پاکستان کا قریب ترین اتحادی ہے۔

مزید پڑھیں: دریائی گھوڑے کی ٹرمپ کی فتح کےبارے میں پیشگوئی سچ ثابت ہوگئی

سعودی عرب کا کردار

پاکستان کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ سعودی عرب، جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں، ہمیشہ ایسے بحرانوں میں مدد فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، اور سعودی عرب کی امداد پاکستان کے لیے ایک بفر کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ سعودی عرب پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں وہ اس کردار کو ادا کرتا آیا ہے۔

نتیجہ

پاکستان کا ٹرمپ کے ساتھ جلد رابطہ کرنے کا فیصلہ ایک حکمت عملی کے طور پر سامنے آتا ہے جس کا مقصد امریکی انتظامیہ کے ساتھ ابتدائی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ پاکستان کی حکومت کو یہ احساس ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں میں لچک اور روایتی سفارتکاری سے ہٹ کر فیصلے کیے جا سکتے ہیں، اس لیے پاکستان اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے بروقت اقدامات کر رہا ہے۔ ساتھ ہی، سعودی عرب جیسے اتحادیوں کا کردار بھی اہم ہو سکتا ہے جو پاکستان کو مشکل وقت میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ توازن برقرار رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کرنے اور اس کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کسی قسم کی پیچیدگیاں نہ آئیں۔

مزید خبریں