جمعرات,  21 نومبر 2024ء
محکمہ پولیس کے تفتیشی افسران 

تحریر. شوکت علی وٹو

پنجاب پولیس جس کے ہونے سے صوبے میں امن قائم ہے پنجاب پولیس میں جہاں ایماندار فرض شناس افسران و ملازمین موجود ہیں وہی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے باعث محکمہ پولیس کی بدنامی بھی ہوتی ہے محکمہ پولیس مجبوری کے تحت یا جان بوجھ کر ایسے اقدامات نہیں کرتا جس سے رشوت ستانی کرپٹ عناصر کی حوصلہ شکنی ہو،محکمہ کے افسران کو تمام مسائل کے حوالے سے معلوم ہو گا اور اس بات کا ادراک بھی رکھتے ہوں گے وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ ایسے اقدامات کر نہیں پا رہے جس سے رشوت ستانی کم ہو سکے. ضلع حافظ آباد میں پولیس میں بے شمار ایسے نام ہیں جن کو سن کر جرائم پیشہ عناصر کی ہوا نکل جاتی ہے اور ان پر خوف طاری رہتا ہے ان افسران کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر علاقہ تک چھوڑ جاتے ہیں.وہی محکمہ پولیس میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو محکمہ کی بدنامی کروانے میں کسر نہیں چھوڑتے.محکمہ کے مسائل اپنی جگہ ہیں ان مسائل کے باوجود محکمہ پولیس کے وہ لوگ جو رشوت ستانی سے دور رہے اور کام کرتے ہوئے محکمہ پولیس کے لیے نیک نامی کا باعث بنتے ہیں وہی افسران و ملازمین قابل تقلید بھی ہیں ایسے افسران کی فیلڈ میں بہت شدت سے ضرورت رہتی ہے

 

دوسری جانب وہ لوگ جو رشوت ستانی کو عروج دیتے ہیں پھر دوران سروس ان وطیرہ ہوتا ہے کہ کس طرح لوگوں سے رشوت نکلوانی ہے ان عناصر کیخلاف محکمہ کو بھرپور کارروائی کرنے کی سخت ضرورت ہے محکمہ میں رشوت ستانی کا آغاز جرائم پیشہ لوگ ہی کرواتے ہیں افسران و ملازمین بھی پہلے پہل جھجھک کر رشوت لیتے ہیں جب رشوت لے لیتے ہیں اور پکڑ نہیں ہوت تو پھر یہ سلسلہ رکتا نہیں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پھر رشوت لینے والے پولیس افسران و ملازمین رشوت لیتے لیتے عادی ہو جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے موٹرسائیکل پر آئے افسران اپنے آپ کو غلط راہ پر گامزن کر لیتے ہیں اور زندگی کی آشائشوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگ جاتے ہیں جس کی بدولت آج پنجاب بھر سمیت حافظ آباد میں رشوت ستانی عام. سی بات ہو گی ہے نئے بھرتی نوجوانوں کو جو سروس کے آغاز سے گاڑی ٹھاٹ باٹ کے شوقین ہوتے ہیں رشوت لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ کسی کی دادرسی کی بجائے صرف ملزم مدعی کی جیب کے حساب سے ریلیف دینے والے بن جاتے ہیں رشوت ستانی کرنے والے جو کل تک موٹر سائیکل اور زیرو جائیداد والے ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں اور بنگلوں سمیت شاہانہ زندگی گزارنے لگتے ہیں جبکہ ان رشوت خور افسران کی پوری سروس کی تنخواہیں اکھٹی کر لی جائے تو شاید ان کے اثاثہ جات کا آدھا بھی نہ بن پائے جتنی دولت ان کے پاس ہوتی ہے سرکاری نوکری کو بطور پولیس مین کرنا ایک اعزاز ہونا چاہیے تھا لیکن رشوت ستانی کی وجہ سے موٹرسائیکل پر آنے والے بندہ کیسے آگے چل کر مہنگے ترین سکولز میں بچوں کی تعلیم مکمل کرواتا ہے، مہنگے سوٹ بوٹ، برانڈڈ چیزیں، لگثری زندگی، بنگلہ جائیداد جو ان کی تنخواہیں سے بالکل پوری نہیں کی جا سکتیں، موجودہ تنخواہیں میں لگثری زندگی گزارنا ممکن نہیں، سادہ طریقے سے ممکن ہے یا پھر آبائی بڑی جائیدادیں ہوں تو لگثری زندگی گزانا ممکن ہوتا ہے،

 

محکمہ پولیس کو سروس کے آغاز سے اے ایس آئی سے لیکر انسپکٹرز، افسران کے مکمل اثاثوں کی تفصیلات لینی چاہیے اور ہر سال یا ہر پانچ سال بعد بھی اثاثے جات کی محکمہ پولیس چھان بین رکھے جو بہت ضروری ہے. بہرحال رشوت ستانی کی سبب محکمہ پولیس کافی بدنام ہے جس کے بارے افسران بالا کو غور و فکر کرتے ہوئے محکمہ کو پوری سہولیات فراہم کرنا ہوں گیں تاکہ یہ رشوت ستانی کا سلسلہ اگر ختم نہیں ہو سکتا تو کم ہو جائے.ضلع حافظ آباد کے مختلف تھانوں میں تعنیات اے ایس آئی و سب انسپکٹرز رشوت ستانی کے حوالے کافی شہرت رکھتے ہیں جن کا عام لوگوں تک کو معلوم ہے کیونکہ ہر دوسرا شخص رشوت دینے پر مجبور ہے اور وہ رشوت دیکر چپ رہے ناممکنات میں سے ہے اس کے باعث معاشرے میں بہت کہانیاں سنائی دیتی ہیں. عام شہری جو تھانے جاتا ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے کسی کے ظلم کا شکار ہوتا ہے اور اس آس پر تھانے جا کر اپنی درخواست دیتا ہے کہ اس کی دادرسی کی جائے گی،پاکستان سمیت ضلع حافظ آباد میں ایسی ہوا چلی ہے کہ ظلم سے پسے لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے بجائے رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے مدعیان کو انصاف ملنے کی بجائے تھانوں کے متعدد چکر لگوائے جاتے ہیں ظلم زیادتی کا شکار شخص، عورت کی اگر ایف آئی آر درج ہو جائے تو پھر ملزمان کیخلاف ریڈز کے لیے مختلف طریقوں سے مبینہ رشوت رقوم طلب کی جاتیں ہیں ان کو گاڑی فیول کھانے کے لیے رقوم دینی پڑتی ہیں کیونکہ تھانے میں سرکاری گاڑیوں میں فیول کم ہے یا پھر دستیاب ہی نہیں،تفتیشی افسران مختلف طریقوں سے مدعیان کو اتنے چکر لگواتے ہیں کہ ان کو مجبوراً رشوت دینے کے لیے منت سماجت کرنی پڑتی ہے

 

تفتیشی افسران جھوٹی کہانیاں سنانے کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں رشوت لینے کا بھی احسان جتاتے ہیں جیسے بڑا مجبور ہو کر رشوت لے رہے ہیں کچھ نے ساتھ ہی مصلیٰ رکھا ہوتا ہے مذہبی امور بھی کر رہے ہوتے ہیں اور مدعی کو مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں کہ حکومت و افسران کس طرح ان کا استحصال کر رہے ہیں اور وہ کس طرح بڑی مشکل سے نوکری کر رہے ہیں بس پوچھیے ہی مت، مدعی کو لگتا ہے حکومت و افسران بہت برے ہیں جن کی بدولت ان کو نہ تو آرام مل پاتا ہے نہ کوئی سہولیات ہیں کئی تو خود کو اتنے دیالو ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی گرہ(جیب) سے سب کر رہے ہیں شاید تنخواہ بھی نہیں بچ پاتی. ایسی ایسی کہانی سنا کر قسمیں اٹھائی جاتیں ہیں ظلم و زیادتی کے شکار شخص کو لگتا ہے کہ تفتیشی تو مجھ سے بھی مظلوم ہے اسی کہانی کے چکر میں وہ پھنس کر رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور کچھ یہ سنا کر رشوت لیتے ہیں کہ اس کیس کے پیچھے تگڑی سفارش ہے یا سیاسی حکمران جماعت کا ایم این اے یا ایم پی اے ہے ان کو کیس کے حوالے سے بڑے دباؤ کا سامنا ہے.ظلم و زیادتی کا شکار بندہ جب تمام کہانی قصوں کے بعد تفتیشی افسران کے رشوت سمیت دیگر اخراجات برداشت کر بھی لے تو پھر ملزمان کی گرفتاری کے بعد ایک اور امتحان شروع ہو جاتا ہے وہ ہوتا ملزمان سے ریکیوری کروانا جو ایک الگ امتحان ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے اب ملزم کو ساتھ لیکر ریکیوری کروانی ہے یہ بھی اخراجات ہیں جو تم کرنے ہیں اگر مدعی کر بھی لے تو پھر بھی اس کے ساتھ کئی دفعہ ہاتھ ہو جاتا ہے جب دوسری جانب کو کسی طاقتور کی آشیرباد ہو یا پھر ملزم سے بھاری رشوت مل جائے تو بڑے آؤبھگت سے رکھا جاتا ہے خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے ایک دو دن کا دن کا ریمانڈ لیا جاتا ہے اور پھر جیل روانگی کروا دی جاتی ہے اور مدعی پھر عدالتی چکر میں پڑ جاتا ہے جہاں اسے وکیل بتاتا ہے تمہارے مقدمے کی ضمنی میں تو کچھ خاص لکھا نہیں اور وہ شواہد جو ہونے چاہیے تھے جس پر جزا سزا کا فیصلہ ہوتا ہے کمزور ہیں ملزم کی ضمنی میں ہیر پھیر سے ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے

 

یہ یاد رہے یہ سب کیسسز میں نہیں ہوتا لیکن کافی زیادہ کیسسز میں جہاں مدعیان کمزور ہیں یا وہ مطلوبہ مبینہ رشوت دے نہیں پاتے اور ملزمان بااثر ہوتے ہیں وہ سادہ طبیعت ہیں غریب ہیں مطلوبہ رشوت نہیں دی گی ان کی ضمنی میں فائدہ دے دیا جاتا ہے جو آگے جا کر کیس پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، یا پھر افسران کی سفارش و سیاسی مداخلت سے مرضی کی ضمنی لکھوائی جاتی ہے جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے متعدد کیسسز میں ابتدائی طور پر ضمانت کروانے کے حوالے مبینہ فائدہ پہچایا جاتا ہے اگر کہیں ملزمان زیادہ ہی بااثر شخصیات کی پست پناہی حاصل کردہ ہیں تو سفارش پیسے کے بل بوتے پر ہی پرچے سے بیگناہ ہو جاتے ہیں مدعیان مقدمہ کی ابتداء میں ہی اتنے چکر لگا چکے ہوتے ہیں ساتھ لائے لوگوں پر اتنا خرچہ کر چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ انکوائری کی درخواست دینے کی بجائے اپنا منہ لیکر رہ جاتے ہیں اس کا فائدہ بھی جرائم پیشہ عناصر اٹھاتے ہیں اور معاشرے میں بھی یہ بات زبان زدعام ہے کہ انصاف کے لیے رلنا پڑتا ہے اس حوالے سے تمام انکوائری کی ویڈیوز بنانی چاہیے کہ دونوں فریقین ملزم و مدعی کو تفتیشی افسران کس طرح سنتے ہیں اور بوقت ضروت ان کو دیکھ کر بہتری لائی جا سکے. دوران انکوائری تفتیشی افسر اگر زیادہ تنگ کرے تو کئی مدعی افسران بالا کو شکایت کرتے ہیں تو تفتیشی افسران اپنے افسران کو جو بات سناتے ہیں افسران ان کی بات حرف آخر سمجھ لیتے ہیں.ظلم و زیادتی شکار سائل اگر کسی طرح افسران تک پہنچ جائے تو اس کو بات بتانے کا طریقہ نہ ہو اور وہ ہو بھی سادہ طبعیت کا تو پھر بھی اس کے لیے مذید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں افسران زیادہ وقت سن نہیں سکتے چند منٹ سن کر فیصلہ دینا ہوتا ہے عام شہری جو پہلے کبھی افسران کے پاس نہیں گیا ہوتا وہ رعب و دبدبہ دیکھ کر اپنا مدعا صحیح طرح سنا نہیں پاتا یا پھر کئی دفعہ افسران کے پوچھنے کا انداز اتنا سخت ہوتا ہے کہ سادہ طبعیت مدعا ہی بھول جاتا ہے جبکہ دوسری جانب تفتیشی افسران تجربہ کار ہوتے ہیں وہ اپنے افسران کو مطمئین کر لیتے ہیں سائل اپنا منہ لیکر رہ جاتا ہے اور مایوسی اس کا مقدر بنتی ہے

 

مدعیان سے انصاف کی فراہمی کی کہانی سنا بھاری رشوت لی جاتی ہے اور ملزمان سے فائدہ دینے کے لیے بھاری رشوت لے لی جاتی ہے ملزم (ورثاء) رشوت اس لیے خاموشی دے دیتے ہیں پیسے کے بل بوتے پر ریلیف ملے گا اور مدعی اس چکر میں چلو رشوت دیکر انصاف مل جائے گا،جب رشوت دینے کے باوجود انصاف نہیں ملتا تو پھر وہ مختلف افسران بالا کو تفتیشی افسران کیخلاف درخواست دیتا ہے.کہ شاید اس کی دادرسی ہو جائے لیکن مشاہدے یہ بات سامنے آئی ہے ایسے معاملات میں تفتیشی افسران کسی نہ کسی طریقے سے مدعیان کو چپ کروانے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں اور درخواست دینے والے انصاف سے بھی محروم رہتے ہیں اور کئی کیسدز میں تفتیشی کو شوکاز یا انکوائری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی دوران درخواست دینے والے کو مختلف دباؤ ڈال کر چپ کروا لیتا ہے اور انکوائری سے سرخرو ہو جاتا درخواست دہندہ اپنے موقف سے معاشرتی عوامل کے دباؤ کے تحت پیچھے ہٹ جاتا ہے چپ کر جاتے ہیں جس کا فائدہ کرپٹ عناصر پوری طرح سے اٹھاتے ہیں کچھ لوگ جو انتہائی کم  تناسب میں جو 0 اعشاریہ سے بھی کم ہے وہ رشوت ستانی کیخلاف اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کا رخ کرتے ہیں جہاں جاکر ظلم و زیادتی کے شکار شخص کو ایک مذید مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہےجس گزر کر رشوت لینے والے افسر پر نشان زدہ نوٹ( رشوت) گرفتار کرنا ہوتا ہے اگر ریڈ کامیاب ہوتا ہے تو پھر بھی بہت سارے کیسسز میں بعد میں مختلف دباؤ کے تحت صلح کر لی جاتی ہے اور کرپٹ تفتیشی افسر پھر دھڑلے سے نوکری کے دوران رشوت لیتا رہتا ہے جس سے رشوت ستانی کو مذید تقویت ملتی ہے.پچھلے چند مہینوں میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے حافظ آباد نے ایک دو ریڈ کیے ہیں جس میں دیکھا گیا ہے کہ افسران بالا تک نے رشوت لینے والے پولیس والے کی مدد کی ہے مدعیان کو چپ کروانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے ہیں

 

رشوت ستانی کے تدارک کے لیے حکومت پنجاب کو ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس سے بھلے رشوت ستانی جڑ سے ختم نہ ہو لیکن کم تو ہو جائے اور میرٹ پر لوگوں کو انصاف کی فراہمی ممکنات میں ہو سکے محکمہ پولیس تمام تفتیشی افسران کے ہر سال اثاثے چیک کرے اور خفیہ طریقے سے چھان بین کروائی جائے ان کو ہر ماہ ایک مخصوص تعداد سے زائد مقدمات نہ دیے جائیں ان کی ڈیوٹی کے وقت کا تعین کیا جائے اور تھانہ جات میں مذید سہولیات دی جائیں جس میں ہر تفتیشی افسر کے لیے کیمرہ کے سامنے بیان و تفتیش کو لازمی قرار دیا جائے جس میں دوران انکوائری ملزم اور مدعی کو ہی بٹھایا جائے جو اپنے اپنے موقف کو پیش کر سکیں.جو بعدازاں بوقت ضرورت بطور ثبوت پیش کیا جا سکے اسی طرح تفتیشی افسران کو سرکاری گاڑی فیول و دیگر اخراجات کے لیے فوری دیے جائیں تاکہ ان کو اخراجات کے لیے مدعی سے کبھی بھی رشوت نہ لینی پڑے اکثریت تفتیشی افسران نے پرائیویٹ رائٹرز رکھے ہوئے ہیں جن کو ہر کیس کی ضمنی وغیرہ لکھنے کے لیے بھاری رقم دی جاتی ہے تفتیشی افسران کو خود ضمنی لکھنے کا پابند بنایا جائے تاکہ سرکاری کاغذات جو ضمنی کی شکل میں ہوتے ہیں پرائیویٹ افراد کی پہنچ تک نہ ہو سکیں،تمام اخراجات کے لیے باقاعدہ طریقہ کار وضع ہو پھر بھی اگر کوئی رشوت ستانی کرے تو اس کے لیے جزا سزا ضرور ہو کرپٹ جب دوبارہ بحال ہوتا ہے تو پھر وہ اپنی رشوت لینے کا پیمانہ بڑھا لیتا ہے حکومت پنجاب کو اس حوالے سے کافی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں سیاسی و افسران بالا کا دباؤ بھی ختم کرنا شامل ہے پھر شاید ظلم و زیادتی کے شکار شخص، عورت کو انصاف مل سکے.

Shoukatwatto@gmail.com

03456522331

مزید خبریں