محرم الحرام میں نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں آپریشن ’عزم استحکام‘ پر عملدرآمد کا پہلا کلیدی مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ آپریشن مذہبی , فرقہ وارانہ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتا ہے، جو پاکستانی قوم کو امن اور ترقی کے لیے متحد کرتا ہے۔
پاکستان نے جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پارٹنر کے طور پر قدم اٹھایا ہے، پاکستان خود فرقہ وارانہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی میں جل رہا ہے۔ محرم الحرام میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدار کا مرحلہ آپریشن ’عزم استحکام‘ کا تعین کرے گا۔پاکستان علماء کونسل نے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام، بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کیلئے انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی مشاورت سے پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق میں زیادہ تر اس حوالے سے قومی پلان کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے تصادم کا راستہ مفاہمت کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔محرم الحرام میں امن و امان کیسے ممکن ہے ملک کے حساس ادارے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں امن و امان کی یہ ذمہ داریاں صرف حکومت اور اس کے اداروں پر ہی نہیں بلکہ علماء، ذاکرین، واعظین، خطباء اور عوام الناس پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ ماضی میں محرم الحرام کے دوران ہونے والے فسادات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ چھوٹی سی غیر ذمہ داری یا جذباتی اندازامن کیلئے خطرہ بن جاتا ہے ۔ ملک بھر بالخصوص پنجاب میں محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی سکیورٹی انتظامات کا سلسلہ جاری ہے، محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے موبائل فون سروس جام کرنے کی سفارشات مانگ لی ہیں۔ نو اور دس محرم الحرام کو پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی جائے گی۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے تمام اضلاع کو محرم الحرام کے سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے باقاعدہ مراسلہ لکھ دیا ہے۔ ہوم سیکرٹری پنجاب کا کہنا ہے کہ نویں اور دسویں محرم کو دفعہ 144 لگائی جائے گی۔ یوم عاشور کی کڑی نگرانی اور سخت سکیورٹی کے لئے پنجاب پولیس نے محکمہ داخلہ پنجاب سے لاہور سمیت صوبے بھرکے مختلف اضلاع کی فضائی نگرانی کے لئے پنجاب حکومت سے 2 ہیلی کاپٹر مانگ لیے ہیں۔ پنجاب بھر کے حساس مقامات پر ایلیٹ فورس اور رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ پنجاب پولیس نے یوم عاشور پر سکیورٹی بیک اپ کے لیے نے پاک فوج اور پنجاب رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی بھی سفارش کی ہے جبکہ لاہور پولیس سے ریزرو کی خدمات فراہم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
یوم عاشور پر موبائل فون سروس بند کی جائے گی یا نہیں اس سلسلے میں محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر کے اضلاع کے ڈی سیز اور ڈی پی اوز سے سفارشات طلب کر لی ہیں۔ کیبنیٹ کمیٹی برائے امن وامان اجلاس میں محرم الحرام کے سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ جہاں ملک بھر بالخصوص پنجاب کے تمام اضلاع میں سیکورٹی کے اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نےفول پروف سیکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہےپنجاب حکومت نے اس بار امن کو سبوتاژ کرنے کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک آؤٹ آف دی باکس فیصلہ لیا ہے، توقع ہے کہ وزارت داخلہ فوری ردعمل دے گا تاکہ محرم کے دوران امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر 9 اور 10 محرم کو سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے پر غور کیا، تاہم اس سے کہیں زیادہ عوامل ہیں کیونکہ نفرت انگیز مواد اور میمز کو سرحد پار سے شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ فنڈنگ کی اطلاعات ہیں، موجودہ حالات میں انٹرنیٹ اور موبائل جیمنگ کی معمولی معطلی کام نہیں کر سکتی۔
قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر نے تسلیم کیا کہ کابینہ کمیٹی نے نفرت انگیز مواد کو پھیلانے سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی۔
رپورٹ کے مطابق محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں فوج اور رینجرزطلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ترجمان محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ فوج اور رینجرز کی 150 کمپنیوں کی خدمات طلب کی گئی ہیں۔فوج کی 69 اور رینجرز کی 81 کمپنیاں تعینات کرنے کے لیے مراسلہ جاری کردیاگیا، ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا کہ یکم سے 12 محرم کے دوران خدمات طلب کی گئیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت پنجاب نے وزارت داخلہ سے 6 سے 11 محرم تک انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ فرقہ وارانہ تشدد سے بچنے کے لیے نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ حکومت پنجاب نے وزارت داخلہ سے 6 سے 11 محرم تک انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی درخواست کر دی تاکہ فرقہ وارانہ تشدد سے بچنے کے لیے نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ اطلاعات ملنے کے بعد کہ ’بیرونی طاقتیں‘، بشمول سرحد پار عناصر، نفرت انگیز مواد اور میمز شیئر کرنے میں ملوث ہیں، حکومت نے عاشورہ کے موقع پر انٹرنیٹ کی معطلی اور موبائل جام کرنے کے معمول کے اقدامات سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر اور محکمہ داخلہ پنجاب کی رائے ہے کہ انٹرنیٹ بند کرنے سے عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جبکہ زیادہ تر غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، جسے اس وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جب انٹرنیٹ بند ہو۔
کابینہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد گزشتہ روز محکمہ داخلہ نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ ایپس (فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک وغیرہ) کو صوبے بھر میں 6 تا 11 محرم تک معطل کیا جائے تاکہ نفرت انگیز مواد، غلط معلومات پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ تشدد سے بچا جاسکے۔کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر کے رکن سید عاشق حسین کرمانی نے کہا کہ اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ محرم کے دوران سوشل میڈیا ایپس خاص طور پر فیس بک اور ایکس پر نفرت انگیز مواد کئی گنا بڑھ جاتا ہے جو کہ آخر کار دو فرقوں کے درمیان تنازع کی وجہ بن جاتا ہے۔محرم الحرام میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدار کا مرحلہ آپریشن ’عزم استحکام‘ کا تعین کرے گا۔یاد رکھیں کہ یہ فیض آباد د دھرنا کیس کی رپورٹ میں بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ تشدد‘ دہشت گردی اور ہر قسم کی بدامنی کے خلاف یہ ایک منظم اور موثر منصوبہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں نیشنل ایکشن پلان میں ہے کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا
دہشت گردی کے خلاف نیکٹا فعال نہ ہوسکا جو قابل افسوس ہے یہ درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اہم اداروں بشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا رہا ہے آج بھی تمام انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔
دسمبر 2014میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے بعد قائم کیے گئے نیکٹا کو فعال ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نیکٹا کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں جب کہ پاکستان تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے وفاقی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ ایم آئی اورایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ‘ تمام صوبوں کے آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری صاحبان‘ سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ لیکن اس اتھارٹی کے بورڈآف گورنر ز کا اجلاس باقاعدگی کے ساتھ نہیں ہورہا ۔ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا تھا لیکن انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے ۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو ریگولر کرنے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سامنے ہے بلکہ ماضی میں اس سلسلے میں تحریک انصاف کی وفاقی ,, پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت سرکاری خزانے سے مدارس کی فنڈنگ کرتی رہی، میڈیا میں دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو ہیرو بناکر پیش کرنا کو بند کرنا تھا ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آیا ‘ آج بھی متعدد اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز دھڑلے سے سرگرم ہیں ,فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کرنا سب سے زیادہ اہم تھا یہ علاقے دہشت گردوں کا گڑھ بن گئے ہیں آجکل ان علاقوں میں دہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام مکمل طور پر ختم کرنا تھا انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور منظم مہم چلانا تھی یہ مہم کب چلے گی اس کا جواب پالیسی سازوں کے پاس ہوگا؟
نیشنل ایکشن پلان میں ہےکہ ملک میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں رہنے دیا جائے گا اس نکتے پر عمل درآمد کے لیے انتہاپسند تنظیموں، ان کے عہدیداروں، فنانسرز اور سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں کثیر الجہتی آپریشن کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں ہےکہ بلوچستان کوخصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں صرف مذہبی نہیں بلکہ قوم پرستی کے نام پر بھی دہشت گردی ہو رہی ہے محرم الحرام میں فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات کے محاذ پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے بھائی کہلانے والے ملکوں کی باہمی آویزش پاکستان میں بھی پراکسی کی صورت میں آنے کا خدشہ ہے عالمی اداروں کے ساتھ مل کر تمام افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا حتمی پروگرام بنایا جائےضروری ہے کہ اس مسئلے پر وفاق اور صوبوں کی پالیسی یکساں ہو‘اب توافغان باشندوں کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں فوجداری نظام عدل میں اصلاحات لانے کا ذکر ہے موجودہ فوجداری قوانین اور عدالتی نظام مجرموں کو سزا دینے کے قابل نہیں قانون میں اصلاحات اور عدالتی نظام میں بہتری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
خاص طور ایسی پولیس اور پراسیکیوشن کی تشکیل جو دہشت گردی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوا سکے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے‘ملک کے ہر شعبے کو مذہبی انتہا پسندی نے متاثر کیا ہے‘ NAP کے ایجنڈے کے ان 20 نکات میں ہر نکتہ اپنی جگہ اہم اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے ‘اس کے لیے ضروری ہے کہ ایجنڈے کے ہر پوائنٹ پر کام کرنے کے لیے الگ الگ ماہرین کے گروپ یا تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کو ایک متعین مدت میں ٹھوس سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا کہا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں واحد رکاوٹ صرف حکومتی نااہلی ہی ہو سکتی ہے۔