تحریر: انجینئر افتحار چودھری
ابھی ابھی عمر سلطان کی شادی میں شرکت کر کے آیا ہوں۔ ایک شاندار موقع تھا جہاں بہت سے مہمان شریک تھے۔ پی ٹی آئی کے ساتھی، جو ایک عرصے سے غم کے پہاڑ تلے دبے ہوئے تھے، ان کے چہروں پر ہنسی لوٹ آئی تھی۔
لاہور سے کئی دوست شریک ہوئے، بلکہ پاکستان بھر سے لوگ عمر سلطان کی خوشیوں میں شریک ہوئے تھے۔ وہاں ایک نوجوان بھی تھا، جس کی ٹانگ میں ڈی چوک کے واقعے میں گولی لگی تھی، اور اس کے ہاتھ میں عمران خان کی تصویر تھی۔ وہ بیرسٹر گوہر، فیصل چوہدری، علی بخاری،ڈاکٹر طاہر جاوید ،جمشید چیمہ، بلال اعجاز، اور شہریار آفریدی نوید افتخار،ملک تیمور کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہا تھا۔ شبیر گجر نے دوستوں کے ساتھ رونق لگا رکھی تھی، اور اسلم گجر صاحب کا نام بار بار لیا جا رہا تھا۔
یہ موقع یاد دلاتا ہے کہ مسئلہ صرف بات کرنے کا ہے اور سلیقہ بات کو منوانے کا۔ جب بھی کسی بات کو منوانا ہو تو اس میں سلیقہ اور تحمل کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ قیادت کا جوہر یہی ہے کہ اپنے لوگوں کے ساتھ نرمی اور دشمن کے سامنے فولاد بنے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قیادت نے اکثر اس اصول کو الٹا رکھا۔ ہم میں سے بہتوں نے یہ سیکھا کہ جو بات کہی جاتی ہے وہ اپنی حقیقت میں جتنی اہم ہے، اس کا اظہار کرنے کا سلیقہ بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔
میر افضل بھائی کی ایک بات نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ بازار عقل سیکھنے جا رہے ہیں۔ دراصل، ان کا مطلب تھا کہ زندگی کے تجربے ضروری ہیں۔ عقل کا تعلق صرف کتابوں سے نہیں ہوتا، بلکہ ہر تجربے سے ہوتا ہے۔ لاہور بھی میرے لیے ایسا ہی ایک تجربہ تھا۔ پہلی بار جب لاہور دیکھا تو میں نے سوچا تھا، کیا میں یہاں رہ سکوں گا؟ یہ شہر اپنے رنگ و روغن، عظمت، اور بے شمار روایتوں کے ساتھ ایک مختلف دنیا محسوس ہوتی تھی۔ لیکن وقت نے سکھایا کہ یہ شہر دلیر بادلوں کو جگہ دیتا ہے، جہاں ہر کوئی اپنی چھاؤں تلاش کر سکتا ہے، چاہے وہ دیہاتی ہو یا شہری۔اور میں نے اسی شہر کے گورنمنٹ کالج اف ٹیکنالوجی کے سٹوڈنٹس یونین میں بھرپور کردار ادا کیا اور اپنے گروپ کے ساتھ 1974 میں عزیز الرحمان چن گروپ کو اور محبوب بٹ گروپ کو بری طرح اور اسی کالج میں اسلامی جمہوریت طلبہ کا یونٹ پہلی دفعہ قائم کیا لاہور میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا اور نظام مصطفی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لاہور ہی نے مجھے بڑے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور یہ لاہور ہی تھا کہ مولانا مودودی میاں طفیل نوابزادہ نصر اللہ خان رانا اللہ داد خلیل حامدی جاوید ہاشمی لیاقت بلوچ فرید پراچہ اور بہت سے سیاست دانوں سے ربط بڑھا۔
مجھے یاد ہے کہ میجر حمید نے بھی کہا تھا کہ لاہور نے انہیں بہت کچھ سکھایا۔ یہاں آ کر ہی انہیں سلیقے، شائستگی، اور عزت کے بارے میں بہت کچھ سمجھ آیا۔ لاہور کے ان تجربات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں، چاہے آپ کہاں سے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں، اور آپ کیا پیش کرتے ہیں۔ لاہور نے مجھے سکھایا کہ صرف بلند آواز سے بات کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ آپ کے الفاظ میں وزن ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک مہذب طریقہ ہے جسے ہر انسان اپنی زندگی میں اپنانا چاہتا ہے۔
میرے لیے یہ تجربہ بہت اہم تھا، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کبھی بھی، کہیں بھی، سچائی اور محنت کا راستہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی جدوجہد کو بھی دیکھا ہے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑا اور ان کے دل جیتے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی قیادت کی سب سے بڑی خصوصیت یہی تھی کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی قوم کے حقوق کے لیے سمجھوتہ نہیں کیا۔ عمران خان کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کو سچائی کی طرف رہنمائی کرنی ہو تو اس کے ساتھ اس کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک مسئلہ جو ہمیشہ موجود رہا ہے وہ یہ ہے کہ باتیں کرنے کا سلیقہ ہمیں کم ہی آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اپنی بات کہنے میں بے تکلف اور بے پرواہ ہوتے ہیں، حالانکہ بات کرنے کا سلیقہ کسی بھی معاشرتی نظام میں کامیاب ہونے کے لیے ایک لازمی عنصر ہے۔ اور یہی سلیقہ ہمیں قیادت کے اصول سکھاتا ہے۔
ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم کیسے اپنے ملک کی قیادت اور ریاستی اداروں میں اس سلیقے کو لائیں، تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنے مسائل کے حل کے لیے آگے آئیں اور ان کے مسائل کو خوشی سے سنا جائے۔ ریاستی اداروں کے افراد کا سلیقہ، ان کا رویہ، اور ان کی نرم دلی ان سب چیزوں کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔ اور جب آپ اپنے لوگوں کو عزت دیں گے، ان کی بات سنیں گے، تو وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔
ایسے وقت میں قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جب آپ کو اپنی طاقت کا اظہار نہیں کرنا ہوتا بلکہ اپنے لوگوں کے ساتھ، ان کی حالت سے آشنا ہو کر، ان کے دلوں میں جگہ بنانی ہوتی ہے۔وہاں وہ نوجوان بھی شامل تھا جس نے ڈی چوک میں ہماری ہماری اکیڈمی سے تربیت یافتہ لوگوں کا پیار اور محبت اس کی زخمی ٹانگ میں نظر ا رہا تھا بیرسٹر گوہر نے اس موقع پر ایک جملہ کا سا کہ نوجوان گولی تو وہاں چلی نہیں تھی تو تمہیں ٹانگ میں کیسے لگ گئی؟
ایک مخلص قیادت وہ ہوتی ہے جو مشکلات میں بھی لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔
وکٹر ہیوگو کا ایک قول ہے: “وہ جو دلوں میں جگہ بناتا ہے، وہ کسی بھی ہار کا سامنا نہیں کرتا۔” قیادت کا مقصد لوگوں کو تسلی دینا ہوتا ہے، انہیں یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔
اگر ہم اپنے لوگوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی باتوں میں نرم دلی، محبت، اور سلیقہ لانا ہوگا۔ یہ اصول ہمیں نہ صرف سیاست میں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی اپنانا چاہیے۔ “ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن”، یہ اقبال کا قول ہمیں بتاتا ہے کہ جو رشتہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ قائم کرتے ہیں وہ اسی صورت میں مضبوط ہو سکتا ہے جب اس میں نرم دلی ہو، لیکن اگر ہم کسی مشکل یا چیلنج کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں فولاد کی طرح مضبوط ہونا پڑے گا۔
آج کے دور میں، جہاں ہر شخص اپنی آواز بلند کرنا چاہتا ہے، وہی جگہ صرف قیادت کی ہوتی ہے جو سلیقے سے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ قیادت کا جوہر صرف طاقت کا استعمال نہیں بلکہ سلیقے اور سمجھ کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا ہے۔ اور یہ سبق کسی اکیڈیمی میں نہیں فقیر کے ڈیروں پڑھایا جاتا ہے