جمعرات,  09 جنوری 2025ء
ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

قارئین میں آپ کو ایک کہانی سناؤں گا جس سے آپ جان سکیں گے کہ کس طرح ہماری حکمران اور ہمارے روحانی باپ، مدرسوں اوراعلی تعلیمی اداروں میں ہمیں کس طرح جنگوں کی، ملک کی ترقی کی ،دو قومی نظریے کی، پانچ سالہ منصوبوں کی، معیشت کی بہتری کی، تحریک پاکستان کی اور پھر ہندوؤں اور سکھوں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیاں سناتے رہے۔

اس کہانی میں ایک دادی اپنی جھوٹی انا، تکبر اور خاندانی اثر رسوخ کے حوالے سے اپنی پوتی کو گمراہ کرتی رہی
تو اب آپ کہانی پڑہیں ۔ اس میں پوتی کے کردار میں آپ خود کو تصور کر لیں۔
خاندانی تصاویر کی یہ البم میں بہت شوق سے دیکھتی جس میں ہر چیز بڑی پر شکوہ ،عظیم اور پر نخوت نظر آتی
کیا عورتیں اور کیا مرد ،سب ہی بہت شاندار دکھائی دیتے ہیں۔ دادی فخریہ انداز میں ہمیشہ کہتی یہ ہے ہمارا خانوادہ اور باقی دنیا کو ایک طرح سے حقارت سے دیکھتی
اور وہ ہمیشہ اپنی یتیم پوتی سے کہتی کہ اسے فخر کرنا چاہیے جو ایک اتنے بڑے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ دادی نے خاندانی البم بہت سنبھال کے رکھ چھوڑی تھی اور کبھی کبھی اسے دیکھنے کی اجازت دیتی تھی اور کہتی تھی ایک دن تم جب بڑی ہو جاؤ گی تو اپنے خاندان پر فخر کرو گی۔
میں اپنی خاندان کی عورتوں اور مردوں کے بارے میں جاننا چاہتی تھی جیسے کہ باربرا آنٹی
تصویر میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ایسا لگتا تھا اگر فوٹوگرافر ذرا انتظار کرتا تو وہ کھل کھلا کر ہنس پڑتیں۔
دادی سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن وہ کچھ خریدنے بازار گئی پھرکبھی واپس نہیں آئی ۔
باربرا ذرا جلدی پریشان ہو جانے والی تھیں اور وہ غائب دماغ لڑکی تھی
ایک اور آنٹی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بے رخی سے جواب دیا کہ اس آنٹی نے ایک دن غلطی سے زہریلی دوا پی لی تھی اور اپنی شادی کی ایک مہینے کے بعد ہی فوت ہو گئی۔
دادا کی تصویر بڑی شاندار تھی ۔وہ ایک لمبا کوٹ پہنے دونوں ہاتھ اپنی چھڑی کے سر پر رکھے بڑے عمدہ انداز میں کھڑے تھے۔ دادی نے کہا کہ وہ جوان عمری میں ہی گھوڑے سے گر کر فوت ہو گئے تھے۔ وہ ایک بہت نفیس شخص تھے۔ خدا انہیں اپنی امان میں رکھے۔
دادی نے ایک اور تصویر دیکھ کر کہا خداوند ایڈگر کو بھی اپنی امان میں رکھے ایڈگر انکل کی آنکھیں سبز تھیں جنہیں دیکھ کر دنیا خوش ہوتی تھی
انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی تھی اور وہ اپنے وقت کے سب سے بڑے کاروباری شخص تھے۔ انہوں نے کئی فارم بنائے اور شہر بنائے
یہ بات مجھے شیخی لگی۔ فارم بنانا تو ٹھیک ہے مگر شہر؟
وہ تو بہت بڑے ہوتے ہیں۔ انکل ایڈگر شہر کیسے بنا سکتے تھے؟
میں نے صفحہ پلٹا انکل کی انگریز بیوی کی تصویر دیکھی۔ دادی تصویر دیکھ کر بولی، یہ دونوں ایک بحری جہاز میں ملے تھے۔ ایڈگر یورپ سے واپس آ رہا تھا دونوں بہت خوش تھے یہ شاندار آدمی اتنی جلدی مر گیا ۔
پھر اگلے صفحے پر لوزہ آنٹی تھی۔ وہ نرم و نازک اور بہت مہربان آنکھوں والی تھی۔ وہ نن بن گئی تھیں۔ میں نے دادی سے سوال کیا کہ نن ہی کیوں ؟
انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی وہ بہت نرم دل اور مہربان تھی، بالکل نیک روح، جب وہ 20 برس کی تھی تو اس نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ اس کی پائنتی پر بیٹھا ہے اگلے دن اس نے نن بننے کا فیصلہ کر لیا ۔

ایک دن گھر کی ملازمہ مرگریڑا غصے کی حالت میں پھٹ پڑی اور ہمارے خاندان والوں کے کھوکھلے پن اور منافقت پر کھل کر بولی ملازمہ چیخی اور بے رحمی سے بولتی رہی
انکل ایڈگر نے گھنگریالے بالوں والی انگریز سے اس کی دولت کے لیے شادی کی تھی وہ بہت عیاش تھے
اور تمہاری وہ آنٹی لوزہ ان کی شادی ہی نہیں ہو رہی تھی تو انہوں نے نن بننے کا فیصلہ کیا
میرا منہ غصے سے لال ہو گیاملازمہ ،جس کو اس گھر نے پالا پوسا تھا اور جو ایک حبشی کی اولاد تھی اب میرے بزرگوں کی تصویروں کو پاش پاش کر رہی تھی جو تصویریں میرے ذہن میں بن چکی تھیں
یہ سب بکواس ہو سکتی ہے میرے بزرگ لالچی اور کمزور نہیں ہو سکتے
مگر ،مگر سب سے بڑا اعصاب شکن حملہ اس ملازمہ نے میری والدہ پر کیا تھا
اس نے پوچھا تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے والدہ کون تھیں؟ مرگریڈا نے ماں کے بارے میں جو باتیں کہیں وہ یہاں بیان نہیں کر سکتی
مرگریڈا کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا
بولی تمہاری آنٹی باربرا بالکل صحیح الدماغ تھیں انہوں نے خاموشی سے گھر چھوڑا اور شادی کر لی ان کے پانچ بچے تھے
ملازمہ نے بتایا کہ اس کی دادی یہاں ملازم تھی اس بدمعاش ایڈ گر نے اس کی عزت لوٹی جس کو چھپانے کے لیے میری دادی کی شادی تمہارے دادا کے ایک چچا زاد بھائی سے کر دی گئی جبکہ ایڈ گر ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا
مارگریڈا اتنے غصے میں کیوں آگئی اس کی وجہ بھی میں تھی
میں نے اسے ایک لڑکے سے ملنے سے منع کر دیا تھا جو ایک باعزت خاندان کا سفید فام لڑکا تھا جبکہ یہ ملازمہ کالی تھی
اس نے میری منت سماجت کی تھی لیکن میں نے جا کے دادی کو شکایت لگا دی اور دادی نے اس کا باہر نکلنا بند کر دیا تھا تب میرے چہرے پہ مسکراہٹ ائی تھی مگر اب ملازمہ کی باتیں سن کر روتے روتے میری آنکھ لگ گئی۔ اگلے دن میری آنکھ کھلی تو سر درد سے پھٹ رہا تھا ۔مرگیڈا کی باتیں میرے ذہن میں تھی۔ مجھے بہت سی باتوں کا مطلب سمجھ آگیا تھا
اس دن البم میں، میں نے تصاویر کو ایک نئے زاویے سے دیکھا ۔مجھے باربرا آنٹی کے چہرے پر وہی خوف نظر آیا جو میرے چہرے پر تھا۔

دادی بولی یاد رکھنا نچلے طبقے کے لوگوں سے تعلق رکھنا کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے جیسے خانوادے سے حسد کرتے ہیں۔ میں تم سے توقع کرتی ہوں کہ تم ہمارے خاندان کو، خاص طور پر میرے نام کو آگے بڑھاؤ گی

میرا خون کھول اٹھا میری دادی اپنے بیٹے کی شادی میں اس لیے شریک نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک یہودی لڑکی سے شادی کر رہا تھا
دوسرے دن میں نے پھر البم دیکھی تو مجھے کچھ اور نیا نظر آیا
تمام تصاویر میں خواہ وہ مردوں کی ہو یا عورتوں کی سب نے آہنی شمیض بہن رکھی تھی
( ایک آہنی شمیض جو انتہائی حلقی چادر کی بنی ہوتی ہے اور اس کے عقب میں تسمے بندھے ہوتے ہیں جسے کمر سے کس لیے جاتا ہے ۔اس کی وجہ سے کمر سیدھی اور جسم کے خدوخال ، خاص طور پر سینہ زیادہ واضح نظر آتے ہیں، پہنی ہوئی تھی)۔
میں نے دادی کو دیکھا تو انہوں نےاب بھی یہ شمیض پہن رکھی تھی۔ انہوں نے پوچھا کچھ نیا نظر آیا ؟میں نے کہا جی دادی مجھے سب کا آہنکار نظر آیا ہے
اس خاندان کے سبھی افراد نے خود کو نمایاں کرنے کے لیے آہنی شمیض پہن رکھی ہے
مجھے مرگیڈا کی باتوں سے آپ سب کے کرتوت پتہ چل چکے ہیں۔ میں اب آپ کی باتوں میں نہیں آؤں گی
یہ عیاش، آوارہ اور ناخلف خاندان اور آپ کی اولاد۔
دادی پر سکتا طاری ہو گیا میں نے آخری بات کی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا دادی؟ اگر مناسب سمجھیں تو یہ آہنی شمیض اتار دوں ؟
آپ کو سانس لینے میں آسانی ہوگی
دادی نے سر جھکا لیا ۔کمرے میں روشنی بڑھ گئی اور میرے دل پر جیسے ایک بوجھ سا ہٹ گیا
کہانی ختم ہوئی۔
اگر کہانی سمجھ نہ آئے تو ایک بار پھر پڑھ لیں
کاش ہمارے نصاب میں سچ لکھا جائے یا پھر
کاش پاکستانی عوام بھی اس پوتی کی طرح اپنے حکمرانوں کی آہنی شمیض اتار سکتے
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجیے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس کہ اب یقین بھی اندھا نہیں رہا

مزید خبریں