بدھ,  05 فروری 2025ء
معاشرتی مسائل اور رویوں کا عکاس!

 تحریر: انجنیئر افتخار چودھری

پاکستان میں روزمرہ زندگی کے معاملات میں ہمیں ایسے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں جو معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ عوامی خدمات کے ادارے ہوں یا عوامی مسائل، ہمارے رویے اکثر غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ رویے نہ صرف شہریوں کو پریشان کرتے ہیں بلکہ ایک قابلِ ذکر موضوع بحث بھی بن جاتے ہیں۔

حال ہی میں، ایک واقعہ سامنے آیا جہاں روزمرہ کی ایک چھوٹی مگر اہم ضرورت یعنی ڈرائیونگ لائسنس بنانے کے دوران پیش آنے والی مشکلات نے ان رویوں پر روشنی ڈالی۔ ایک شخص نے کہا کہ وہ پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل 1020 پر کال کر رہا ہے، جو مجیب الرحمن شامی کے کہنے پر کی گئی تھی۔ ہر بار، اس کے سامنے ایک نئی رکاوٹ آ کھڑی ہوتی ہے، اور آج تک وہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوا سکا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ، جو عوام کی خدمت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔

اسی تناظر میں ایک اور دلچسپ مسئلہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا جہاں خواتین اور مرد حضرات فوجی وردی پہن کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ یہ نہ صرف اداروں کی عزت کو مجروح کرتا ہے بلکہ ایک پیشہ ورانہ مذاق کے مترادف بھی ہے۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ وردی پہننے کا ایک وقار ہوتا ہے؟ اور کیا یہ مناسب ہے کہ سوشل میڈیا کے سستے شوق میں اس وقار کو قربان کر دیا جائے؟شائستہ بٹ چیف ٹریفک افیسر ہے پتہ نہیں وہ کیسے ٹائم نکال لیتی ہیں اور پنجاب سے بھی یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے
یہ مسئلہ نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی، کچھ صحافیوں کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ وردی پہن کر عوام کو لوٹنے کے لیے ناکے لگایا کرتے تھے۔ یہ رویے ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے لیے ان کی ذاتی دلچسپیاں اور ناجائز مفادات عوامی خدمت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔

اسی دوران، ایک اور مسئلہ بھی دلچسپی کا باعث بنا۔ ایک شہری نے ایک سروس ایریا کے واش روم میں کرسی والا واش روم نہ ہونے پر سوال اٹھایا۔ وہاں صفائی کرنے والے نے، جو بظاہر دین کا گہرا علم رکھنے کا دعویٰ کر رہا تھا، کہا کہ “کرسی پر حاجت روائی کرنے سے وضو مکمل نہیں ہوتا۔” یہ جملہ، جو سننے میں مزاحیہ معلوم ہوتا ہے، ہمارے معاشرتی رویوں کا گہرا عکاس ہے۔ لوگ اپنی اصل ذمہ داریوں سے غافل رہ کر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور ان پر تبصرے کرتے ہیں۔میں شہزاد ملک کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہ اہم مسئلہ اٹھایا ہے

یہ سب مسائل ہمیں ایک سوال کی طرف لے جاتے ہیں: کیا ہم اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے اور ان کے ملازمین اپنے کام کو سمجھتے ہیں اور اسے احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں؟ یا ہم ان چھوٹے مگر اہم مسائل میں الجھے رہیں گے جو عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں؟

یہ رویے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے کتنے دور ہو چکے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ مسائل اگرچہ معمولی لگتے ہیں، مگر ان کا اثر معاشرے کی مجموعی ترقی پر پڑتا ہے۔

اس کالم کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور دوسروں کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ رویے نہ صرف فرد کی ترقی میں رکاوٹ ہیں بلکہ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہونا چاہیے کہ ہم اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں ہر شخص اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کرے۔

مزید خبریں