بدھ,  15 جنوری 2025ء
طلاق کی شرح میں اضافہ کیوں ہوتاجارہاہے؟جانئے معنی خیز تجزیاتی رپورٹ

اسلام آباد،مانچسٹر(محمد وقاص،شہزاد انور ملک سے)طلاق کے لغوی معنی نکاح کی گرہ کو کھول دینا، ترک کر دینا یاچھوڑ دینا ہے۔

حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق سماجی مسئلہ بن چکی ہے۔

جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 1970 میں طلاق کی شرح پاکستان میں 13 فیصد تھی جس میں اب 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

طلاق کا مطلب 2 لوگوں کی جدائی صرف نہیں ہوتا بلکہ طلاق کے بعد دو خاندانوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑک جاتی ہے۔

دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے۔قربانی دینے کے عزم میں کمی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت سماجی اسٹیٹس حرص و ہوس اور شوہر یا بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا ہے۔

طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ عدم برداشت ہے جس کا من حیث القوم ہم شکار ہیں میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں تو برداشت کا مظاہرہ نہایت ضروری ہے۔ اکثر اوقات شوہر غصّے میں ہی طلاق سنا دیتے ہیں لیکن پھر پوری زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔

•آج کل کے ڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کے بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کے لیے نئی تراکیب متعارف کروائی جارہی ہیں اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنی روش بدلنا ہو گی۔

• پاکستان میں فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کردیا گیا تھا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اضافہ کررہا ہے۔

گز شتہ بر سوں کے مقابلے میں سال2018ء میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رحجان بڑی تیزی سے بڑھا، انا پر ستی ، خود کمانے و خود کفیل ہونے کا گھمنڈ اور معاشرتی بے راہ راوی نے ’’خانگی نظام‘‘ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

2018ء میں لاہور کی فیملی عدالتوں میں خلع کے کیسز کے انبار لگے رہے۔تفصیلات کے مطابق سال2018ء میں خلع کے 15800 دعوے دائر ہوئے جن میں اس سال کے دوران شوبز سے وابستہ پڑھے لکھے معروف ستارے بھی خلع کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا ہوتے رہے۔

خلع کی ڈگریاں لینے والی خواتین میں تعلیم،صحت، ملٹی نیشنل ، نجی و سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ پاکستان کی معروف اداکارائیں و گلو کارائیںبھی شامل ہیں۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ طلاق کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور انا پر ستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑہے۔ پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بچے حوالگی کے مقدمات میں بھی 23 فیصد سے 37 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

مزیدپڑھیں:ڈیجیٹل کرئیٹرز، افرا اور شاہ رخ کا طلاق اعلان

قاضی اور منصفین کی ذمّہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی میں جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں تاکہ باہمی اتفاق قائم ہو اور طلاق کے خدشات زائل ہوجائیں۔

شادی کے بندھن کو قائم رکھنے کے لیے سمجھدار لوگ میاں بیوی کے مابین صلح کروائیں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی یقینی بنائیں۔عورت اور مرد کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ان کی پسند سوچ کا انداز ہر چیز مختلف ہے تو جب تک جنس مخالف کی نفسیات کا دونوں کو اندازہ نہیں ہوگا تو یہ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پائیں گئے اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بالآخر علیحدگی پر منتج ہوں گی اس لیے ایسی کتب کا مطالعہ میاں بیوی دونوں کو کرنا چاہیے جو مرد اور عورت کی نفسیات یا شادی شدہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے لکھی گئی ہیں۔

اولاد کی اچھی تربیت بہت ضروری ہے کیونکہ یہی اولاد بڑی ہوکر ایک اچھا شوہر یا ایک اچھی بیوی بنے گی ہم آنے والی نسلوں پر کام کریں گے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بنے گا۔

دوسری جانب معروف مذہبی اسکالرمفتی طارق مسعود نے کہاکہ فحش فلموں کے انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بد اثرات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن ایک حالیہ تحقیق نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ یہ اخلاق سوز مواد معاشرے کی تباہی اور شادی کی شرح میں تشویشناک کمی کا بھی باعث بن رہا ہے اور حتیٰ کہ شادی شدہ لوگ بھی ان فلموں سے متاثر ہوکر اپنے گھر برباد کررہے ہیں۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوان فحش فلموں کے عادی ہوکر شادی کی ذمہ داریوں سے گھبرانے لگتے ہیں اور جنسی تسکین کا آسان ذریعہ فلموں کی صورت میں ڈھونڈلیتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ان کی ازدواجی زندگی مسلسل ناکامی اورمسائل کا شکار رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح میں بھی ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مسائل اس قدر سنجیدہ ہو چکے ہیں کہ مغربی ممالک نے بھی فحش مواد پر قابو پانے کیلئے اقدامات شروع کردئیے ہیں اور برطانیہ میں تو اس سلسلے میں قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ خدارا فحش فلموں اور انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کی تلا ش اور ان سے وقتی دوستیاں چھوڑکر اپنی بیوی سے اپنا
زدواجی تعلق نبھائیں ۔

مزید خبریں