مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت قومی اسمبلی سےعوام دوست بجٹ کثرت رائے سے منظورکروا کر اپنے پہلے چیلنج میں کامیاب ہو گئی ہے قومی اسمبلی نے مالی سال
25-2024 کاعوام دوست وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کیا ہے،قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2010 میں آخری این ایف سی ہوا تھا اور چاروں صوبوں نے مل کر اس وقت کے وزیر اعظم اور صدر کے ساتھ مل کر این ایف سی کی منظوری دی، اس وقت دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر پمارے صوبے تھے لیکن خیبرپختونخوا کے فورسز اس وقت فرنٹ لائن پر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں خود اس میں شریک تھا اور یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں سب کام ہوا یہ آج تک چلا آرہا ہے اور ہمیں اس پر آج تک اعتراض نہیں۔انہوں نے بتایا کہ 2010 سے آج تک 590 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ملے دہشتگردی کے حوالے سے، اس صوبے میں بھی ہمارے بھائی اور بہنوں نے شہادتیں دی ہیں مگر اس ضمرے میں کسی کو پیسے نہیں ملے سوائے خیبرپختونخوا کے، میں ادب سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ 590 ارب روپے دیے گئے لیکن آج تک وہاں سی ٹی ڈی قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے یہ رقم مختص کی گئی تھی ایوارڈ میں، اس کو سوچیں کہ 590 ارب جاچکے مگر سی ٹی ڈی آج بھی نامکمل ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب میں چیف سیکریٹری کے حوالے سے جو اپوزیشن نے کہا تو ہم نے ان کو تین ناموں کا پینل دیا ہے خیبرپختونخوا میں لیکن ابھی تک انہوں نے فیصلہ نہیں دیا، ان کو نہیں پسند تو ہم اور کوئی پینل دے دیتے ہیں، خیبرپختونخوا کی عوام پاکستان کے بہادر عوام ہیں، یہ ایک خوبصورت صوبہ ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں 18 ہزار 887 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کیں.
پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی۔ حکومت نے مالی سال 2025 کے وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کو موجودہ 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 80 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم حکومت وقفے وقفے سے 20 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کرے گی۔ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری کا عمل جاری تھا جس میں قومی اسمبلی نے وزارت دفاع کے 2149 ارب 82 کروڑ روپے سے زائد کے 4 مطالبات زر منظور کیے، انٹیلی جنس بیورو کا 18 ارب 32 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ جب کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کے لیے ایک ارب 36 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ بھی منظور کیا گیا۔ ہوا بازی ڈویژن کے 26 ارب 17 کروڑ کے 3 مطالبات زر جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے7 ارب 26 کروڑ 72 لاکھ کے 2مطالبات زر بھی منظور کیے گئے۔ قومی اسمبلی نے وزارت تجارت کے 22 ارب 73 کروڑ 57 لاکھ روپےکے 2 مطالبات زر، مواصلات ڈویژن کے 65 ارب 31 کروڑ 50 لاکھ 59 ہزار کے 4 مطالبات زر، دفاعی پیداوار ڈویژن کے 4 ارب 87 کروڑ 9 لاکھ 50 ہزار روپے کے 2 مطالبات زر منظور کیے۔ خیال رہے کہ 12 جون کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کیا تھا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وفاقی حکومت کا ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا ہے.
نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 4 ہزار 845 ارب روپے، براہ راست ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5ہزار 512 ارب روپے اور انکم ٹیکس کی مد میں 5ہزار 454 ارب 6کروڑ روپے کا ہدف مقرر ہے جبکہ گراس ریونیو کا ہدف 17ہزار 815ارب روپے مقرر کیا گی ، اس کے علاوہ سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5 ہزار 142 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ جاری اخراجات کا ہدف 17ہزار 203ارب روپے، سود کی ادائیگی پر 9 ہزار 775 ارب روپے کےاخراجات ہوں گے۔
اگلے سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 500 ارب روپے رہنے اور رواں مالی سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 388ارب روپے کا تخمینہ ہے، مجموعی طور پر بجٹ خسارہ 7ہزار 283ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔خیال رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کیں، پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی ایوان میں پیش کی دوسری جانب اپوزیشن نے بھی فنانس بل کے خلاف ترامیم پیش کر دیں اور وزیر خزانہ کی پیش کردہ ترامیم کی مخالفت کی تھی۔ وفاقی حکومت نے مالی سال 2025 کے وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کو موجودہ 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 80 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم حکومت وقفے وقفے سے 20 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کرے گی۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے 18ہزار 877 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کیا ہے۔ فنانس بل25-2024 کی منظوری کے بعد ایوان میں ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی، قومی اسمبلی نے رواں مالی سال کے لیے 477 ارب چار کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کے 25 مطالبات زر منظور کیے۔ قومی اسمبلی نے مالی سال 23-2022 کے لیے 740 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کے 53 ضمنی مطالبات زر منظور کیے جب کہ 141 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کے 26 اضافی مطالبات زر بھی منظور کیے گئے۔بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ کیا گیا جب کہ حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کو مبارکباد دی۔خیال رہے کہ حکومت نے 2 ہفتے قبل بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسے شدید مہنگائی کا باعث قرار دیا۔
پیپلز پارٹی جس نے ابتدائی طور پر بجٹ بحث کا بائیکاٹ کیا تھا، اس نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ دے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان نے بھی تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا قبل ازیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔ معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کی والی اختراع ہے، میرے اوپر چھوڑا جائے تو یہ اختراع ملک میں فی الفور بند ہو جانی چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے، آئندہ سال کے لیے ہم نے نان فائلرز کے لیے ریٹس کو بہت بڑھادیا ہےتا کہ وہ تین چار بار سوچے کہ اس کو اس ملک میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے ترقیاتی بجٹ ایوان میں پیش کردیا گیا، کمزور طبقات کے لیے جو بات ہوئی، اس میں کم از کم تنخواہ، یوٹیلٹی اسٹورز کی بات ہوئی ہے، ہم اس کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔ اسی طرح سے نجکاری کی بات کی جا رہی ہے، یہ دو سے تین سال کا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی، ریاستی اداروں میں اصلاحات، انرجی، پاور سیکٹر کی اصلاحات بھی مجموعی طور پر اس بجٹ کا حصہ ہیں اور یہ ہمارے مستقبل کے روڈ میپ کا حصہ ہیں۔ بعد ازاں پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دی گئی۔
وزیر خزانہ نے فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کیں، پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی۔ہائی اوکٹین پر 70 روپے فی لیٹر اور ای ٹن گیسولین پر 50 روپے لیوی ہو گی، ایک میٹرک ٹن ایل پی جی پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔وفاقی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پرلیوی میں20 روپے تک اضافے کی تجویزواپس لے لی، فنانس بل کے مطابق پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پرلیوی میں20روپے کے بجائے10 روپےفی لیٹراضافہ کردیا گیا۔فنانس بل میں کہا گیاکہ پیٹرول اورہائی اسپیڈ ڈیزل پرلیوی کی حد60 سے بڑھا کر70روپے فی لیٹرکردی گئی، لائٹ ڈیزل پرلیوی50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر75 روپےکرنے کی تجویز واپس لے لی گئی۔ لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی کی بالائی حد50روپے فی لیٹر برقرار رہے گی، ہائی آکٹین پرلیوی50 روپےسے بڑھا کر75 روپے لٹر کرنے کی تجویز بھی واپس لے لی گئی، ہائی اوکٹین پرلیوی 50 روپےسے بڑھاکر 70 روپے فی لیٹر کردی گئی۔ مٹی کے تیل پر لیوی50 روپے فی لیٹر پر برقرار رہے گی ،قومی اسمبلی نے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی، پیپلزپارٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی مراعات بڑھانے سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کی، ارکان پارلیمنٹ تنخواہ و مرات ایکٹ میں ترمیم فنانس بل کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی کا سفری الاؤنس 10روپے کلومیٹر سے بڑھا کر25روپے کر دیا گیا۔ ترمیم کے متن کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کے بچ جانے والے سالانہ فضائی ٹکٹس استعمال نہ ہونے پر منسوخ کرنے کی بجائے اگلے سال قابل استعمال ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا اختیار وفاقی حکومت سے لیکر متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جب کہ اپوزیشن نے تنخواہوں اور مراعات سے متعلق پیپلز پارٹی کی ترمیم کی مخالفت کی۔حکومت نے فنانس ترمیمی بل 2024 میں بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ کردیا گیا۔
حکومت نے بین الاقوامی سفر پر اکانومی کلاس میں ایف ای ڈی فی ٹکٹ ساڑھے 12ہزار روپےکردی, مڈل ایسٹ، افریقہ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کی ایف ای ڈی فی ٹکٹ ایک لاکھ 5 ہزار روپے، یورپ کے لیے بزنس کلاس، فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2 لاکھ 10 ہزار روپے کردی۔اس کے علاوہ امریکا کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 3لاکھ 50ہزار روپےکردی گئی ہے، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2لاکھ 10ہزار روپے کردی گئی۔فنانس ترمیمی بل میں ٹیکس کم کرنے کے بجائےمزید بڑھا دیے گئےفنانس ترمیمی بل 2024 میں اسٹیشنری پر دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی، اسٹیشنری پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے،مختلف برانڈز کی کلر پینسل کے سیٹ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس، مختلف اقسام کے قلم کی سیاہی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔اس کے علاوہ ربڑ، پنسل، شاپنرز پر 20 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز ہے، قلم، بال پین، مارکرز پر بھی 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔مقامی سطح پر تیار کرنے کے لیے سولر پینل کے پارٹس کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، بیک شیٹ فلم، کنیکٹر، کارنر بلاک، پولی تھین کمپاؤنڈ اور پلیٹ شیٹ پر بھی سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہوگی، پارٹس آف سولر انورٹر پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، پارٹس آف لیتھیم بیٹریز پر بھی سیلز ٹیکس نہیں ہوگا۔ریئل اسٹیٹ کی جائیدادوں کی فروخت پر پہلی مرتبہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی، بلڈر اور ڈیویلپر کی کسی بھی لانچ کردہ پروڈکٹ پر 3 فیصد ایف ای ڈی عائد ہوگی، کمرشل پلاٹ فروخت کرنے پر ایف اے ڈی عائد ہوگی، فروخت کرنے والا اگر فائلر ہوا تو تین فیصد ایف اے ڈی دے گا، اگر لیٹ فائلر ہوا تو پانچ فیصد ایف اے ڈی دے گا ، نان فائلر ہونے کی صورت میں سات فیصد ایف اے ڈی دے گا۔اسلام اباد میں سیکشن سیون ای کے تحت فارم ہاؤس اور بڑے گھروں پر 5 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد کردیا گیا، اسلام آباد میں 2 ہزار سے 4 ہزار گز تک کے فارم ہاؤس اور گھروں پر فروخت کے وقت 5 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد ہوگا، اسلام اباد میں 4 ہزار گز سے زائد فارم ہاؤس اور گھروں کی فروخت پر 10 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد ہوگا۔
بجٹ میں سیون ایف کے تحت بلڈر اور ڈیویلپر کی انکم ڈیمڈ کرنے کے بعد 15 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔’ٹیکس فراڈ روکنے کیلئے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو میں ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے گا آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکس فراڈ کو روکنے کے لیے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو میں ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، وزیر خزانہ نے اس حوالے سے مالیاتی بل 2024 میں ترمیم پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دی، ترمیم کے تحت یہ ونگ ٹیکس فراڈ اور ٹیکس چوری کے خاتمے کی تحقیقات کا ذمہ دار ہو گا۔ونگ فراڈ انٹیلی جنس اینڈ اینالیسز یونٹ، فراڈ انویسٹی گیشن یونٹ، لیگل یونٹ، اکائونٹنٹ یونٹ، ڈیجیٹل فرانزک اینڈ سین آف کرائم یونٹ، انتظامی یونٹ یا ایف بی آر کے بورڈ کی منظوری سے کسی بھی یونٹ پر مشتمل ہو گا۔ ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن یونٹ کی قیادت چیف انویسٹیگیٹر کرے گا جس کے لیے ایف بی آر کا بورڈ افسران کا تقرر کرے گا۔حکومت کی طرف سے فنانس بل میں ترامیم شامل کر لی گئیں جب کہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا مالی بل 2024ء فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن عالیہ کامران نے مخالفت کی۔رہنما جے یو آئی (ف) نے اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیک دودھ اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، دل کے مرض کے آلات پر ٹیکسوں سے علاج مہنگا ہو گا، نان فائلرز کے نام پر سفری پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اس سے پوری قوم متاثر ہو گی، تحقیق اور تعلیم پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے رکن علی محمد خان نے کہا کہ اس بجٹ سے عام آدمی کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، اس لئے اس بجٹ کی ہم مخالفت کرتے ہیں، 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ میں گھر کا بجٹ بنانا ممکن نہیں.
ملک کی معیشت بہتر بنانے کے لئے سودی نظام سے چھٹکارا ضروری ہے۔علی گوہر خان نے کہا کہ مالی بل میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا مقصد ہوتا ہے، اس دور میں سب سے کم شرح نمو اور ترسیلات زر رہی ہیں، پی آئی اے اور ڈسکوز کے اثاثہ جات کی مالیت 1000 ارب روپے ہے، بجٹ میں اس سے 30 ارب روپے کا حصول ظاہر کیاگیا ہے، ایف بی آر کے اسٹرکچر میں تبدیلی لائے بغیر ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا۔زرتاج گل نے کہا کہ بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں، آبی وسائل، موسمیاتی تبدیلی کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں، ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، آئی پی پیز کو دیئے جانے والے تین کھرب روپے کا کوئی حساب یہاں نہیں دیا گیا۔قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ اس بجٹ کا ہدف پاکستان کی عوام ہے، گندم کی درآمد نے کاشتکاروں کی کمر توڑ دی ہے، کاشتکاروں کی گندم ان سے نہیں خریدی گئی، اس اقدام کے خلاف نیب سے تحقیقات کرائی جائیں، بجٹ سے افراط زر میں اضافہ ہو گا، قیمتوں میں عارضی کمی کے بعد پھر اضافہ ہورہا ہے، بجلی کے نرخ سو روپے فی یونٹ تک جائیں گے، گیس کی قیمتیں بڑھیں گی۔عمیر نیازی نے کہا کہ ہمیں ایسے سیکٹرز دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس نیٹ بڑھے، سولر کی کسانوں کو اسکیمیں دی جائیں، زرعی شعبہ میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، خوردنی تیل کی ملکی سطح پر پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جائے۔