تحریر:اصغر علی مبارک
ہرے بھرے مارگلہ کی پہاڑیوں کےدامن میں واقع اسلام آباد شہر کو دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے ۔ اسلام آباد میں بہت سی پرسکون اور دلچسپ جگہیں سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کی منتظر ہیں۔
ان میں آثار قدیمہ شاہ اللہ دتہ کے قدرتی غار حکومت کی خصوصی توجہ کے منتظرہیں۔ یہ جگہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 سے تھوڑا ہی دور بالکل مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہےیہاں پہاڑوں کے درمیان چند غار ہیں، ایک باغیچہ ہے اور ایک قدرتی چشمہ بھی جس کا پانی سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا نیچے جاتا ہے۔ اس جگہ کو شاہ اللہ دتہ کے غار یا بدھا کے غار، دونوں ہی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ غار قدیم زمانے میں بودھ راہبوں کے عبادت کا مقام ہوا کرتے تھے جبکہ شاہ اللہ دتہ نامی ایک شخص صدیوں پہلے اس بستی کے سربراہ تھے جن کے نام پر اس جگہ کا نام شاہ اللہ دتہ پڑا۔ برگد کے درختوں کی کئی منزلہ اونچی لٹکتی ہوئی جڑیں ان غاروں کو ڈھانپے رکھتی ہیں۔
باغیچے میں آم کے پیڑ ہیں , یہاں برگد کے سینکڑوں سال قدیم درخت ہیں , پورا علاقہ درحقیقت ایک قدیم شاہراہ تھی جس کے ذریعے افغانستان اور انڈیا منسلک تھے۔ یہاں ایک قدیم کنواں ہے جسے شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا۔ شاہ اللہ دتہ سے تقریباً 25 منٹ کی مسافت پر مارگلہ کی پہاڑیوں میں ہائیکنگ کے لیے راستے بنائے گئے ہیں جنھیں ٹریلز کہا جاتا ہے۔ یہاں پر کُل چھ ٹریلز ہیں جن میں سب سے زیادہ جانی پہچانی ٹریل تھری اور ٹریل فائیو ہیں۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ محسن نقوی نے ہم سے ملاقات کی تھی ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نےہمیں بتایا تھا کہ ہم مارگلہ کی خوبصورت پگڈنڈیوں کو محفوظ بنانے کے لیے مارگلہ ٹریل پٹرولنگ شروع کر رہے ہیں، خاص طور پر ان غیر ملکیوں کی حفاظت کے لیے جو قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔
سہ رخی سیکیورٹی کور میں ٹریل موٹر سائیکلز، ماؤنٹڈ پولیس گھڑ سوار سپاہی اور پیدل گشت شامل ہیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد کی مختلف پگڈنڈیوں پر ملکی و غیر ملکی افراد کی ساتھ لوٹ مار اور چھینا جھپٹی جیسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ شاہ اللہ دتہ کے غاروں سے ہی ایک سڑک اوپر جاتی ہے جہاں آپ جتنا اوپر جاتے جائیں گے آپ کے سامنے وادی اور اسلام آباد شہر کے اتنے ہی خوبصورت نظارے ہوتے جائیں گے۔ یہاں پر ایک مقام کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کا ہری پور ڈویژن شروع ہو جاتا ہے۔
گزشتہ روز میں نے مختصر دورے کے دوران شاہ اللہ دتہ گاؤں میں مارگلہ پہاڑیوں کی سسکیاں سنیں، درختوں کی چیخیں , پرندوں کی سرگوشیاں محسوس کیں جوحکومت کی خصوصی توجہ کے منتظرہیں,اب مارگلہ کی پہاڑیاں کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہی ہیں, اپنے دورے کے دوران میں نے نوجوانوں کوصدیوں پرانے برگد کے درختوں کی جڑوں کو اکھاڑتے اورجھولتےدیکھا جو کہ نئی نسل کا انتہائی شرمناک فعل ہے۔
مارگلہ کے قریب بہت سی رہائشی, کمرشل عمارتیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن جواز بن رہی ہیں۔ترقی کے نام پر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم فطرت کوختم کا لائسنس دے رہے ہیں۔ کنکریٹ کے جنگل بننےسے پرندے ہجرت کر چکے ہیں۔ جہاں قدرتی ماحول میں پرندے گاتے ہیں اب وہاں خاموشی ہے, فطرت اور درخت دعائیں مانگ رہے ہیں کہ انہیں کنکریٹ کے جنگل سے بچایا جائے۔ دیکھا جائے تومارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب عمارتوں کی تعمیر تیزی سےاس وجہ سے قدرتی ماحول اورعلاقے کی خوبصورتی کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے حکومت کو چاہیے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے اردگرد کم از کم 500 سومیٹر تک علاقےمحفوظ قرار دے کر کنکریٹ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کرے۔ سیاحوں کے تحفظ کے لیے داخلے کے مقام پر پولیس پکِٹ فوری طور پرتعمیرکی دیا کیونکہ زیادہ تر بدھ مذہب کے زائرین تاریخی مقام کا دورہ کرتے ہیں,
سید حسن علی کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی اسی تاریخی مذہبی گاؤں سےتھا، جنہوں نےہمیں بتایا کہ سابق ڈپٹی میئر اسلام آباد ذیشان نقوی کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ پاکستانی حکومت کو مختلف مذاہب کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اس قسم کے تاریخی مذہبی مقامات پرخصوصی توجہ دینےکی ضرورت ہے اس سے بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔ گزشتہ روز میں نے محسوس کیا کہ شاہ اللہ دتہ گاؤں میں حکومتی دفتر تو موجود ہیں لیکن سیاحوں کی رہنمائی کے لیے ان دفاتر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ یاد رہے کہ حالیہ تاریخ میں پہلی بار بدھ مت کے ماننے والوں نے اسلام آباد کے نواحی علاقے شاہ اللہ دتہ میں واقع 2500 سال پرانی بدھ غاروں میں اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس گاؤں کا نام شاہ اللہ دتہ کے نام پر رکھا گیا ہے جو مغل دور سے تعلق رکھنے والے ایک درویش/ولی تھے۔ شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کا 650 سال پرانا گاؤں ہے۔
اور قدیم غاروں کا وطن ہے جو گزری ہوئی تہذیبوں اور مذاہب کی باقیات کی بازگشت کرتا ہے۔
اس سال ویساک یا بدھا ڈے کا تہوار مئی کے مہینے میں پاکستان میں بانی گوتم بدھ کی پیدائش، نروان کے حصول کی یاد میں منایا جائے گا۔ یہ جشن بدھ مت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
2022 میں ویساک اسلام آباد، ٹیکسلا اور آس پاس کے گندھارا کے علاقے میں منایا گیا، جہاں بدھ مت کی عبادت گاہوں کی باقیات موجود ہیں۔
مختلف تقریبات کا بھی اہتمام کیا گیا، اور غیر ملکی بدھ راہبوں کے علاوہ، مختلف ممالک کے سفیروں اور – پہلی بار – سندھ سے ایک پاکستانی بدھسٹ وفد نے میلے میں شرکت کی۔
ٹیکسلا کے مغرب میں، اسلام آباد کے مشرق میں اور خان پور کے وسطی علاقے میں مارگلہ ہلز اسلام آباد کے دامن میں 2500 سال پرانی بدھ غاریں ہیں۔
تاریخی طور پر یہ غاریں ایک قدیم سڑک کے ساتھ واقع ہیں۔ سولہویں صدی میں جب راولپنڈی شہر وجود میں آیا تو یہ سڑک کابل، پشاور، اٹک اور حسن ابدال سے براہ راست راولپنڈی اور وہاں سے لاہور اور دہلی تک جانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ یہ شاہ اللہ دتہ کے غاروں کے ساتھ ساتھ چلتی تھی اور اسے گرینڈ ٹرنک روڈ یا جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ سڑک غائب ہو گئی لیکن اس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ ہندومت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت اور اسلام سمیت تمام مذاہب نے ہر دور میں ان غاروں کی تعظیم کی ہے۔
سکندر اعظم، چندرگپت موریہ، اشوک اعظم، کوٹیلیہ چانکیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، داتا علی ہجویری، شیر شاہ سوری، اور مشہور سنسکرت گرائمر پنینی سمیت کئی تاریخی شخصیات، مشہور مغل بادشاہ جہانگیر نہ صرف اس جگہ سے گزرے بلکہ یہاں بھی ٹھہرے اور چشموں کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھائی۔
شاہ اللہ دتہ غاروں کے قریب ایک چشمہ، ایک تالاب اور ایک باغ اب بھی موجود ہے۔ باغ میں برگد کے کچھ درخت ہیں جبکہ باقی تمام پھل دار درخت ختم ہو چکے ہیں۔ اسی چشمے کا پانی غاروں سے ملحقہ باغ کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
مغلیہ دور میں جب ہندوستان عرب اور وسط ایشیا سے نکلنے والے تصوف کا مرکز تھا، شاہ اللہ دتہ نامی ایک ولی نے اس باغ میں قیام کیا اور یہاں ان کی تدفین ہوئی۔ وہ جگہ جو پہلے سادھوؤں، راہبوں یا جوگیوں سے منسوب تھی آج مشہور صوفی شاہ اللہ دتہ کے لیے جانا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ان غاروں کے قریب کنتھیلا گاؤں میں ایک قدیم باؤلی بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے شیر شاہ سوری نے بنایا تھا۔
ان غاروں کی حدود کے بارے میں تاریخی کتابوں میں دی گئی معلومات کے مطابق کنجر پتھروں سے بنی یہ غاریں 40 میٹر لمبی، 60 میٹر چوڑی اور آٹھ میٹر بلند ہیں۔
بدھ مت میں انتہائی اہمیت کی حامل یہ غاریں آج ویرانی کی تصویر پیش کرتی ہیں جہاں منشیات کے عادی افراد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق رات کے وقت یہاں سے خوفناک آوازیں آتی ہیں اور سائے کو حرکت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
حکومت کو بدھ مت کے لیے ایک مستقل عبادت گاہ بنانا چاہیے جہاں وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔
یاد رہے کہ اگر بدھ مت کی عبادت گاہوں کی بحالی اور مرمت کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں تو اس سے نہ صرف مذہبی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج بھی سامنے آئے گا۔
ایک قابل فخر پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے تاکہ امن اور محبت کا پیغام دیا جا سکے۔
شاہ اللہ دتہ غار غیر معمولی تاریخ ہے اور بدھ مت کے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور سیاحت کے لیے نئی راہیں کھولنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں