جمعرات,  02 مئی 2024ء
تلاش۔۔۔!!

گستاخیاں۔۔۔تحریر: خالد مجید

ابھی صبح کے اٹھ بجے تھے رنگ برنگے لباس میں موجود لوگ ادھر ادھر پھر رہے تھے ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں کے شاپر اگر بتیاں عرق کلاب اور پھولوں کی چادریں پکڑے ہوئے تھے اور کچھ غم زدہ سٹیٹس لگانے میں بھی غلطاں سیلفیاں بنا رہے تھے یہ کام صرف لڑکے نہیں لڑکیاں بھی کر رہی تھیں انہیں ہر حال میں سیڈ موڈ کا سٹیٹس دنیا کو دکھا کر لائیک لینے تھے اور دوسرا یہ کہ پتہ بھی تو چلے نا کہ وہ زرق برق کے لباس میں دکھی چہرے پر بھی غازہ سجائے قبرستان میں موجود ہیں۔

او یار پہلے قبر تو تلاش کر لو پھر سیلفی بھی بنا لینا مڑ کے دیکھا تو تین نوجوان آپس میں تقریبا لڑ ہی رہے تھے غالبا بھائی تھے یا کزن ہوں گے اور قبر کی تلاش میں تھے جس میں یقینا والد، والدہ یا دادا مقیم ہوں گے لیکن ایک نوجوان کو تو بس یہ تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے چند تصویریں بن جائیں اسی لیے تو اس کی اواز ائی تھی بھائی آپ لوگ ڈھونڈیں میں ذرا سٹیٹس لگا کر آتا ہوں اور وہ بہت دیر تک ادھر ادھر پھرتے رہے قبر تو نہیں مل رہی تھی۔

یار یہاں تو تھی ایک نے کہا نہیں یار میں اس پر تو نیم پلیٹ تھی یہ تو وداؤٹ نیم پلیٹ ہے تیسرے نے کہا او یس اس پر نیم پلیٹ بھی تو لگی تھی اور پھر قبر نہیں ملی مگر انھوں نے سیڈ موڈ کی تصویریں موبائل پر لگانا شروع کر دی انہوں نے کاروائی ڈال دی اور پھر انہوں نے پھول مختلف قبروں پر ڈالنے شروع کر دیے دعا کی لائیو ویڈیو بھی انہوں نے کسی کو سینڈ کی موبائل اپڈیٹ ہو گیا کام تمام ہو گیا دکھاوا پروروں نے جھوٹا دکھاوا دکھا کر یہ جان بچا لی پتہ نہیں ماں سے جھوٹ بولا تھا باپ سے بولا تھا یا کس سے بولا تھا لیکن ان کا دکھاوا کامیاب ہو گیا۔

اس برس پر ایک انوکھی تلاش میں سرگردہ لوگوں کو دیکھا تو انسو اور تیزی سے رواں ہونے لگے میں اپنے ابا جی کی قبر کے قدموں کی طرف بیٹھا رو رہا تھا کہ ان سے باتیں باتیں کرتے کرتے ہلکان ہو چکا تھا مجھے یہ گمان یقین کی حد تک تھا کہ وہ میری باتیں سن رہے ہیں میں ان سے ان کے 2005 میں بچھڑنے کے بعد سے ہر سال ہونے والے واقعات باتیں اور قصے سنا رہا تھا دکھ پریشانی اور مصیبت سب انہیں سنانا چاہتا تھا اور سناتا رہا ھوں کہ کسی کو تو سنا کرطدل کا بوجھ ہلکا کرنا ھی ھوتاطھے ناں …….. اور یہ کام جب جب دل بھر جاتا ھے آ کر دل بوجھ ہلکا کر لیتا ھوں مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے تھپتھپا رہے ہوں۔

میں نے عید کی نماز شہر خاموشاں سے جڑی مسجد میں پڑی تھی جہاں سات بجے جماعت کھڑی ہو گئی اور پھر میں پھولوں سمیت دوبارہ ماں باپ اور دونوں بھائیوں کو عید کی عیدی پھولوں کی روپ میں دینے کے لیے واپس آ گیا ابھی پھول ڈالنے شروع ہی کیے تھے کہ کانوں میں آ واز آئ اس کو صاف کریں یہی ہے اور پھر ایک جواں سال بیلچے سے قبر کے اوپر اگی جھاڑیاں کاٹنے لگا کافی صفائی کے بعد جب کام کافی صفائی ہو چکی اور تختی نظر آنے لگی تو وہ بولا او ہو بھائی یہ تو نہیں ہے پھر انہوں نے دوسری قبر کی صفائی شروع کر دی پھر تھوڑی سی دور ہو کے صفائی کرنے لگے میں اپنی ماں کی پیروں کی سمت میں بیٹھا پھولوں کی عیدی اور اپنے آنسوں کا نذرانہ پیش کر رہا تھا میں اب زیر لب اپنی ماں سے باتیں کر رہا تھا اسے حالات کی ستم ظریفیاں بتا رہا تھا زخمی سینہ دکھا رہا تھا ماں محبت کا مرہم لگا رہی تھی کیونکہ مجھے تسلی سی ہو رہی تھی……. مطلب یہی ہوا نا کہ کوئی آپ کو بہلا رہا ہے سہلا رہا ہے کوئی آپ کی اواز سن کر اپ کی باتیں سن کر جب آپ کو تسلی آنے لگتی ہے تو یقینا یہ خیال آتا ہے کہ کسی نے اپ کی بات سنی ہے۔

ایک آواز سے چونکا اور نم انکھوں سے اوپر دیکھا تو دور سے ایک صاحب مجھ سے پوچھ رہے تھے ساتھ والی قبف کا کتبہ بتائیے گا میں نے پڑوس والی قبر پہ دیکھا اور کہا اس پہ پیاری امی لکھا ہے یہ میری ماں کی پڑوسن کی قبر تھی یہ پڑوسن عجیب مقیم تھی…… عجیب مکین تھی کہ جس کی قبر پر پیاری ماں لکھا تھا اور ابھی جھاڑیاں صاف کرنے والا کوئی نہیں ایا تھا….. میں نے صفائ شروع کر دی…… نہیں یار یہ بھی نہیں ہے رکو میں بتاتا ہوں دیکھو اس گیٹ سے ہم اندر اتے تھے اندر گھسو اور اتنا چلنے کے بعد وہاں پہ یوں اگے انے کے بعد پھر ایک یہ درخت ہوتا تھا درخت کے پاس سے ہم یوں گزرتے تھے اور پھر یوں نہیں نہیں یہ نہیں ہے اور وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرنے لگے یار کہیں قبر ختم تو نہیں ہوگی اگر ایسا ہوا تو میں گورکن کو نہیں چھوڑوں گا وہ غصے میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اب میں ان دونوں کی یہ باتیں سن رہا تھا مجھے یوں لگا جیسے میری ماں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ہو اچھا فیر کی ہویا اواز کی مٹھاس 1992 کے دسمبر کے ابتدائی دنوں جیسی تھی کہ 10 دسمبر کو اس نے انکھیں موند کر 11 دسمبر کو مٹی اوڑھ کر زیر زمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی پناہ گاہ بنا لی تھی۔

بند زبانی اور انکھوں کی روانی میں بہت سی باتیں کرتا رہا پھر بھائیوں کی قبروں کو سہلایا پیار کیا صاف کیا محبت نچھاور کی ایک دفعہ پھر ابا کے پیروں میں آکے خاموشی سے بیٹھ گیا اب میں چپ تھا کہ ماں باپ تو بچوں کی بند زبانی بھی خوب سمجھتے ہیں اور میرے ابا جی میں تو یہ کمال تھا کہ وہ اپنے سب بچوں کی بند زبانی خوب سمجھتے تھے۔

میری سوچ کا دھاگہ ایک دم ٹوٹا جب کانوں میں کانوں میں چیخ چیخ چنگھاڑ کی ایک اواز سنی ہزار دفعہ کہا تھا کہ یہاں کوئی نشانی رکھ دو لیکن مجال ہے کہ تم لوگ میری بات سنو اب ڈھونڈو یہاں تھی یہاں جھاڑیاں ہیں وہ اس درخت کے پاس وہ درمیان والے گیٹ سے اندر آ کے ہم یہیں پہ آ کے دعا کیا کرتے تھے میری دعائیں ختم ہو چکی تھی دل کو قرار ا آنکھیں نچھاور کر کے میں قبرستان سے باہر نکل آیا اور سوچنے لگا واقعی یہ سچ ہے کہ انسان بہت مصروف ہو گیا ہے پتہ نہیں یہ ماں باپ کی تلاش میں بھٹکتے لوگ کتنے عرصے بعد آے تھے اور یہ جو اپنے شوہر کی تلاش میں اپنے بیٹوں کو ڈانٹتی خاتون اتنی مدت پر یہاں تشریف لائی ہوں گی شکر کا کلمہ ادا کیا کہ ہمیں اس تلاش سے بچا رکھا ہے انکھوں پر اگر پٹی بندھی ہو اور دروازے کے اندر داخل کر دیا جائے تو قبرستان کی اونچی نیچی قبروں سے بچتے بچاتے میں اپنے ماں باپ کی خوشبو سے ان کی قبروں تک پہنچ سکتا ہوں بھائیوں کے احترام میں اٹھے ہاتھوں کا اشارہ رات کے اندھیرے میں بھی مجھے قبروں تک پہنچا سکتا ہے پھر کانوں میں کسی کی بات کی بازگشت سنائی دینے لگی دیکھو عام دنوں میں نہ سہی لیکن عید کے دنوں میں قبرستان ضرور جایا کرو کہ یہاں وہ مقیم ہیں جن کی عید تمہیں دیکھ کر ہوا کرتی تھی۔

پھر خیال ایا کہ شاید دنیا بہت مصروف ہے انہوں نے بہت کوشش کی ہوگی کہ کوئی ایسا سافٹ ویئر ہاتھ لگ جائے کہ وہ اپنے مرحومین کو اپنے دکھ کا سٹیٹس بھیج سکیں انہیں تعزیتی پیغام واٹس ایپ کر سکیں لیکن ابھی موبائل میں ایسا کوئی سافٹ ویئر نہیں آیا لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکا کفارہ ادا نہیں ہوتا دعا کے لیے تو قبرستان جانا ہی جانا ہے اس لیے نہیں جانا ہاں یاد ایا شاید یہ لوگ اسی لیے قبرستان نہیں جاتے کہ وہاں پہ انہیں خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اپنی قبریں بھول چکے ہیں کھو چکے ہیں اور اس کی تلاش میں کسی نہ کسی کے سامنے تو ان کی سبکی ہو ہی جاتی ہے اور وہاں پہ ایسی باتیں بھی سننے کو ملی کہ یار کوئی نہ کوئی نشانی یہاں پہ رکھ دو تاکہ وہ یہاں پہ آسکے۔

میرا فون مسلسل بند تھا میں جتنی دیر قبرستان میں رہا فون بند رکھا اس نے بہتطپھر پھر پھر پھر پھر کیب لیکن میں نے فون جیب سے نہیں نکالا اس لیے کہ میں محبت کے انسو نچھاور کرنے آیا تھا دنیا داری سے کچھ الگ ہو کے اس وقت ایسی جگہ پہ تھا جہاں پہ غیبتیں نہیں تھیں جہاں دکھاوا نہیں تھا جہاں پہ خلوص ہے خلوص تھا سب ہماری دعاؤں کے طالب تھے جب میں قبرستان سے باہر آ کے کچھ دور پہنچ گیا تو موبائل نکالا جیسے ہی اسے ان کیا تو اس میں پہلے پانچ چھ سات میسج سعودی عرب کی پاک سرزمین سے تھے واٹس ایپ کھولا تو خانہ خدا کے سامنے کھڑے لوگوں کی دعاؤں کی تصویریں تھیں سیلفیاں تھیں مقام مقدسہ کی سلفیاں تھیں روضہ رسول کے سامنے کھڑے ہو کے سیلفیاں تھیں تو ایک خیال نے پھر جھنجوڑ کے رکھ دیا کہ لیلی کا مجنوں بہت اچھا تھا وہ بہت اچھا تھا اس کی محبت بھی سچی تھی وہ خود بھی سچا تھا وہ دوغلا نہیں تھا اس میں دکھاوا نہیں تھا وہ وہ مجازی عشق میں تھا لیکن عشق حقیقی والے کھوکھلے تھے اس کا عشق مجازین دنیاوی تھا مگر مگر سچ تھا۔

میں سوچنے لگا کہ یہ خانہ خدا میں جا کے عشق خدا کے عشق کا پرچار کرنے والے سیلفیاں بنا بنا کے ہمیں کیا بتانا چاہتے ہیں کیوں ترساتے ہیں یہ اس دنیا میں پہنچ کے بھی اس دنیا سے غافل نہیں ہوتے یہ وہاں بھی دنیا کو اپنے ساتھ رکھے رکھتے ہیں اس مقام کو تو سوچیں کہ وہ کون سا مقام ہے کیسی جگہ ہے اگر وہاں جا کے بھی دنیا داری یاد رہ گئی تو پھر مجنوں اچھا ہوا نا یار وہاں جا کے ہمیں یاد نہ کیا کرو اپنی محبت صرف وہیں پہ ان پر نچھاور کیا کرو وھاں جو گھر تمہارے سامنے ہے جو روضہ رسول تمہارے سامنے ہے ان سے اپنی منواؤ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم وہاں جاتے ہی اس لیے ہو کہ ہمیں تصویریں بھجوا، اور ہمیں تصویریں بھجوا کے اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہو ، کوئی تو ان سیلفی زیادہ لوگوں کو سمجھائے کہ عبادت تو یار بغیر دکھاوے کے کر لو حد تو یہ ہے کہ مسجد نبوی میں نماز کی نیت کر کے کھڑے ہوئے لوگوں کی تصویریں بھی آتی ہیں۔

سوچتا ہوں کہ یہ مسجد نبوی میں جا کے تصویریں کھنچا کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں روضہ رسول پہ جا کر صرف انہیں مناؤ ہمیں نہ دکھاؤ۔

ہم تو آپ کے آمد پرط اس مبارک سرزمین پاک سے ہو کے واپس آہیں گے تو ھم مبارک دینے آہیں گے. ھم

یہاں تک پہنچے تھے کہ گوشہ دانائی کے کمرہ تنہائی میں منہ پھٹ داخل ہو گئے

اور آتےط ہی بولے کہ تمہارے کالم لکھنے کی آواز باہر تک آ رہی تھی تم جن لوگوں کو سمجھانا چاہ رہے ہو انہیں آسان بات بتاؤ کہ وہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں پہ گناہ دھل جاتے ہیں انسان بالکل یوں ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے صاف ستھرا پوتر قسم کا بچہ اگر خدا نے تمہیں موقع دے دیا ہے تو اپنے پوتر ہونے کو ہمیشہ اپنے اپ پر طاری کر لو پھر اس نے انکھ دبائی اور کہا کہ یہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ نو سو چوہے پورے ہو گئے ہوں اور وہاں پہ خدا نے ان کو ایک اور موقع دیا ہو کہ اب اپنی زندگی کو اچھا کرنے کے لیے آسان کرنے کے لیے خوبصورت کرنے کے لیے جو تمہیں یہ موقع دیا ہے خود کو صاف ستھرا کرنے کا اب اس کے سہارے زندگی گزارنا دکھاوے سے باز آو یار میرے تھوڑے کہے کو زیادہ جانو ورنہ گستاخیاں تو میں اور بھی کر سکتا ہوں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News