اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)شہیر سیالوی نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران ملک کے قرض کو اتارنے کیلئے آرمی چیف کو تین اہم اور بڑی تجاویز دیدیں،
انہوں نے کہ پاکستان میں ڈھیروں موبائل نیٹ ورکس استعمال ہوتے ہیں آپ ریاستی ملکیت والا صرف ایک ہی نیٹ ورک رکھیں اور انٹرنیٹ کنکشن بھی ایک ہی ہو، لینڈ لائن ختم کر دیں، یوفون ریاستی نیٹ ورک ہے ، آپ باقی سارےنیٹ ورکس ختم کریں یا اس کے اندر ضم کر دیں جو ان کا پیسہ بنتا ہےوہ انکو دے کے انہیں بھیجیں ، اور دوسری طرف پی ٹی سی ایل کے علاوہ سارے انٹرنیٹ راؤٹرز کو ختم کردیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس سے یہ ہو گا کہ آپ کا روزانہ جو 14 سے 15ارب روپے موبائل پیکجزاور انٹرنیٹ پیکجز کی صورت میں جو ملک سے باہر جا رہا ہے وہ ریاست کماسکے گی
آپ دیکھیں گےکہ عرب کنٹری سے واٹس ایپ بین ہے ۔ آپ کال نہیں کر سکتے آپ لوکل نمبر پہ کال کریں کیونکہ ریاست کو زر مبا دلہ ملنا چاہیے ۔ہم کیا کر رہے ہیں ہم لوگوں نے صرف وہ ویب سائٹس بین کیے جہاں پر ہمارے کچے چٹھے کھل رہے ہوتے ہیں
دوسری تجویزانہوں نے یہ دی کہ آپ ایک فیصلہ کر لیں کہ آپ نے انٹرنیشنل بڑے ممالک سے اجازت نہیں لینی کہ میں اس دکان سے تیل خریدوں یا اس دکان سے تیل خریدوں ایران آپ کو 50سے60 روپے لیٹر آئل اورڈیزل دے رہا ہے۔ پاکستان میں آج شہری کو 300 روپے پر لیٹر آئل اور ڈیزل مل رہا ہے ۔ آپ ایران سے خریدیں۔ آج بھی ان سے سمگلر،چوکیدار یا اپنی سیاست دان وہاں پر بیٹھا بارڈر پہ خرید رہا ہے. وہ کما رہا ہےمگر ریاست نہیں کما رہی
انہوں نے کہا کہ غور کی بات ہے کہ ریاست کمائے ایران سے معاہدہ کر لیں ، گاڑیوں میں تقریبا سوا دو لیٹر جو روزانہ کا ڈیزل ڈلتا ہے نا اس میں 10 کروڑ لیٹر روزانہ استعمال ہوتا ہے 10 کروڑ کو اگر اب 200 کا ریاست نے بیچ لیا تو ڈیڑھ سو ریاست کماتی ہے 10کروڑ کوسو سے ضرب دیں 15 کروڑ روپےروزانہ اور بیس دن میں آپ تین سو ار ب روپیہ بچاسکتے ہیں اس سے آپ 20 دنوں میں دبئی کااور چھ مہینے میں آدھی دنیا کا قرضہ اتار سکتے ہیں
تیسری تجویز میں انہوں نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعدکے بعد جرمنی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اس جرمنی نے فیصلہ کیا کہ ہماری عورتیں سونا نہیں پہنیں گی۔اس جرمنی نے قراردار لائی کہ ہر شخص کی ملکیت میں ون فورتھ حصہ ریاست کاہو گا۔ یعنی گھر میں چار کمرے ہیں تو ایک ریاست کا، چار جوڑے کپڑے کےتو ایک ریاست کا ،چار سائیکلیں ایک ریاست کے،
انہوں نے کہا کہ آپ یہ نہ کریں بلکہ بڑے لوگ اپنی دس کروڑ کی ملکیت کے 10 فیصد ریاست کو دیں، تب قوم انہیں اپنے زیور ،پلاٹ ، جانور تک ریاست کو دیگی۔ایسا کریں تو پاکستان اگلے دن اپنے قرضے اتار دے گا۔مگر اسے پرائم منسٹر ، صدر مملکت ، آرمی چیف اور دیگر بڑے لوگوں سے شروع کرنا ہو گا ۔
انہوں نے معاشی منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا جس ملک کا تعلیم کا بجٹ تو صرف 60 ارب روپیہ ہو اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 471 ارب روپے جو انہوں نے صرف اپنےووٹرز کو دینا ہوتا ہے اور ووٹر سمجھتے ہیں کہ شاید بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بے نظیر صاحبہ کی جائیداد میں سے ملتا ہے ۔اسی طرح پنجاب میں آٹے کے تھیلوں پر نواز شریف کی تصویر تھوپ دیتے ہیں کیا وہ پرائم منسٹریا وزیراعلی ہیں؟ جب کچھ بھی نہیں تو تصویر مطلب کیاہے؟
انہوں نے کہا کہ عوام جب یہ سمجھ جائے کہ ہم خیرات کے پیسوں پہ نہیں پلیں گے ،بنگلہ دیش کی طرح کریں گے ۔بنگلہ دیش کی مثال ہے ہم سے آزاد ہوا نا 52 فیصد خواتین کی آبادی ہے کوئی ایک بے کارخاتون نہیں ملےگی ۔ انکی تمام خواتین کو کاٹیج انڈسٹری لگا کر دی گئی ہے۔جبکہ یہاں 5فیصد سے زیادہ کام کرنیوالی خواتین ہیں ہی نہیں ۔
ڈیفنس بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میراپوائنٹ آف ویو اس پہ ڈفرنٹ ہے، جہاں میں سارا دن اسٹیبلشمنٹ کولتاڑتا ہوں وہاں میں نے اپنے جوانوں کا دفاع بھی کرنا ہے آپ کے ڈیفنس بجٹ 17 پرسنٹ ہے ، جس میں آرمی بھی ہے نیوی بھی ہے ایئر فورس بھی ہے اور اٹامک بھی ہے اس میں آپ کا فوج کا بجٹ جو ہے وہ ساڑھے تین سے چار پرسنٹ آتا ہے۔اس میں پروپیگنڈہ زیادہ ہے۔ یہ فیکٹس ہیں ۔ آپ آج چیک کر لیں۔
انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے معاملے پہ امریکہ کو شٹ اپ کال دینی ہے شٹ اپ کال دیں معیشت کا معاملہ ان چار پوائنٹ ایجنڈا پہ درست کر سکتے ہیں آپ درست کر لیں۔ہم کر سکتے ہیں ہم گامے ماجے نہیں تھے۔ ہم جرمنی کو قرضے دیتے تھے۔ دنیا کی بہترین ائیرلائن ہوتی تھی۔ تھکے ہوئے جہاز ایمریٹس کو دیتے تھے۔ آج ایمریٹس کہاں ہیں اور ہم کتنے قرضوں میںہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج آذربائیجا ن کی ہر بلڈنگ پہ پاکستان کا پرچم بھی لگا ہوا ہے آج ترکیہ میں آپ جا کے کہہ دیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پانی چاہیے ہمیں تو شاید کھانا کھلا کے بھیجیں۔ بوسنیا اور چیچنیا کے لوگ کیوں پیار کرتے ہیں کیوں کہ آپ نے کچھ نہ کچھ کیا ہے لہذا ہم گامےماجے نہیں تھے ہم اب جا کے گامے مانجھےبنے ہیں جب ہماری تلوار پہ عورت اور شراب آئی ہے ،جب ہم لوگ اپنے ضمیر کاسودا کرنے لگ گئے ،ہم ہر چیز پہ امریکہ کو الزام کیوں دیتے ہیں اقبال کیا کہتے ہیں کہ
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گِلا تجھ سے ہےیورپ سے نہیں ہے
جب تک ہم لوگ اس چیز میں اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے ، کچھ ٹھیک نہیں ہو گا ،
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک فیصلہ کرنا ہےکہ کوئی سپر پاور نہیں ہے، امریکہ اور نہ ہی چائنہ سپر پاورہے۔نہ برطانیہ سپر پاور ہے اور نہ ہی روس سپر پاورصرف اللہ ہے ۔ جس دن ہم لوگ یہ سمجھ گئے اسوقت سب ٹھیک ہو جائیگا