
شہریاریاں۔۔ تحریر: شہریار خان دو چار روز سے ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کا بہت تذکرہ ہے۔ کچھ لوگوں نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قیدی نمبر 420 پہ غلط مقدمات
کرنل کی ڈائری سے،تحریر:لیفٹیننٹ کرنل (ر) ابرار خان یہ کورونا وائرس کے وہ دن تھے جب ہم بھی دو دو ہفتوں کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور ہو کر رہے گئے تھے۔ لوگوں کے کاروبار بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔ کورونا وائرس سے جنم لینے والے
عالم اسلام کے اتحاد اور یکجہتی موجودہ اور مستقبل کے حالات کے تناظر میں ایک ضرورت اور وقت کا تقاضہ بھی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اقوام عالم کے ترجیحات بدلتے رہتے ہیں۔ کمزور کو طاقتور اور طاقتور مزید طاقتور بننے کی تگ و دو میں مصروف رہتے
تحریر:سید شہریار احمد سینیئر تجزیہ کار اور نیوز اینکر سید شہریار ایڈوکیٹ کی طرف سے معروف میڈیا پرسنز، شعراء، مختلف مذاہب کے ممتاز افراد کے لیے افطاری کا اہتمام کیا گیا یہ افطاری ایک بین المذاہب ہم اہنگی کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ مسلمان ہر مذہب کے پیروکار کو
شہریاریاں۔۔۔ تحریر: شہریار خان ویسے تو آج کل کوئی بھی خبر اچھی نہیں ہوتی لیکن کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہزار تکالیف کے باوجود ہنسی آ ہی جاتی ہے۔۔ صوبہ سندھ کے وزیر شرجیل انعام میمن نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ صوبائی حکومت
جب ہم پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے کچھ حالات خود پیدا کردہ اور کچھ بیرونی سازش کے طور پر صاف نظر آتے ہیں۔کہ پاکستان کے کچھ پالیسی سازوں نے درست سمت کا تعین نہ کرکے ملک کو
شہریاریاں ۔۔ تحریر: شہریار خان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر حکومتوں کے خلاف تقریریں جھاڑنے والے وہ اینکرز جو صرف چند گھنٹے سکرین پر آتے ہیں لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں ۔ رپورٹرز کی خبروں پر کئی گھنٹے تجزیہ جھاڑنے والے یہ فنکار جو بھی بندر تماشا لگاتے ہیں اس
پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کی خبر سن کر پوری قوم سوگوار تھی۔ انکے گھر اور خاندان غمزدہ اور افسردہ ۔ انکے بال بچے ویران و آنسو بھری آنکھوں سے بوڑھے والدین کپکپاتے ہونٹ اور لرزتے ہاتھوں سے اکھڑی ہوئی سانسوں سے کبھی درودیوار کو دیکھتے کبھی انکی بچپن،
تحریر: علی شیر خان محسود جو شخص یا گروہ پاکستان کے آج کا موازنہ 1971 کے حالات و واقعات سے کر رہاہے۔ جسکو یہ محسوس ہو رہا ہوںکہ پھر اس جیسے سانحے کا ایک بار پھر سے پاکستانی عوام کو سامنا کرنا پڑیگا یا پڑ سکتا ہے۔ تو انکو نہ
تحریر: علی شیر ایک بات پاکستانی قوم کو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالا جاتا ہے کہ وہ فنڈ ز اور قومی سرمایہ ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی بھیجتے ہیں۔ جسکا رونا دھونا ہم