هفته,  27 جولائی 2024ء
قوم کی خاطر ظلم برداشت کرنے والا لیڈر

شہریاریاں۔۔ شہریار خان

قوم کے اس عظیم لیڈر نے چہرہ اٹھایا تو وہ چمک رہا تھا۔ البتہ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔۔ وطن کے لیے اتنی محبت کسی کی آنکھوں میں میں نے پہلی مرتبہ ہی دیکھی تھی۔۔ اس نے روتے روتے دیسی مرغ کیبڑی سی بوٹی منہ میں ڈالی اور بولا میں یہ سب قربانیاں اس قوم کی خاطر دے رہا ہوں۔ اتنا کہہ کر اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور بولا کہ آج کے مینیو میں مٹن ہونا چاہئے تھا مگر انہیں شاید اوپر سے حکم آیا ہے۔۔

میں جانتا ہوں کہ یہ حکم ہمیشہ اوپر سے آتے ہیں۔ اب یہ دیکھیں انہوں نے صرف دو اے سی چلائے ہوئے ہیں حالانکہ چار اے سی چلنے چاہئیں۔۔ یہ سات بیرکس کو توڑ کر ایک بیرک بنائیں تو اس میں اے سی تو زیادہ ہونے چاہئیں۔۔

ذرا بیرکس کا سائز دیکھیں اور بتائیں کہ کیا یہ مناسب ہے؟؟۔ میں نے بتایا ہے اپنے دوستوں اور کارکنوں کو کہ میرے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں پر اقوام متحدہ کے سامنے مظاہرہ ہونا چاہئے، اس نے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا۔ میرے دوستوں اور کارکنوں نے امریکا میں لابنگ فرم بھی ہائر کی ہے۔

لیڈر نے میرا ہاتھ پکڑا تو میرے بھی آنسو نکل آئے کیونکہ ہاتھ کی گرپ کچھ زیادہ ہی مضبوط تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ بمشکل چھڑایا تو کپتان نے کہا افسوس کہ آپ کو یہاں آنا پڑا ہے، میں نے سوچا تھا کہ آپ کو دکھاؤں گا کہ یہ میرے ساتھ کتنی زیادتیاں کرتے ہیں۔۔ میں چونک پڑا۔۔ گویا آپ کے ساتھ بھی شہباز گل والا معاملہ پیش آیا؟۔

نہیں، نہیں۔۔ وہ والی زیادتی نہیں۔۔ اب دیکھیں ناں مٹن کا کبھی روسٹ کھلا دیتے ہیں تو کبھی کڑاہی۔۔ میں نے دو تین مرتبہ شنواری کڑاہی کھانے کی فرمائش کی تو جیلر کہنے لگا ہمارے پاس ایسا کوئی مشقتی نہیں جو شنواری کڑاہی بنا سکے۔۔ میں نے اسے بتایا کہ علی محمد کو یہاں پہنچا دو۔۔ لیکن یہ اسے ملک بھر کی جیلوں میں سیر کراتے رہے مگر یہاں نہیں لائے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کو یہاں کھانے میں کیا دیتے ہیں تو امت مسلمہ کا وہ لیڈر پھٹ پڑا۔۔ کہنے لگا۔۔ میں بھوکا رہ لوں گا مگر ان کے سامنے جھکوں گا نہیں۔وہ بولتا رہا۔۔میں نے کہا کہ مجھے مٹن اور دیسی مرغ کھلایا کرو، میں نے سوچا تھا کہ یہ دونوں میں سے کوئی فرمائش پوری کریں گے لیکن انہوں نے مینیو میں دونوں ڈشز ڈال دیں۔۔

اب میں کہتا ہوں کہ کچھ اس کے علاوہ بھی کھلا دیا کریں لیکن یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ ہٹ کر کھلائیں گے تو آپ کے وکیل ہمیں عدالت میں بلوا لیں گے کہ عدالت نے جو حکم کیا تھا وہ کیوں نہیں مانا گیا، ہم توہین عدالت کا نوٹس نہیں وصول کرنا چاہتے۔۔ خیر مجھ پر یہ بے شک ظلم و جبر کر لیں لیکن میں جھکنے والا نہیں۔

میں ابھی سوال کرنا چاہتا تھا کہ کپتان دھاڑا۔۔ ظالمو۔۔ ظلم اتنا کرو جتنا برداشت کر سکو،اوئے جیلر، اوئے ڈپٹی۔۔ نہ تم نے چٹنی دی ہے اور نہ ہی رائتہ۔۔ دیکھ لینا میں تمہاری شکایت کروں گا، گوہر کو بتاؤں گا، بابر سے کہوں گا یہ معاملہ عدالت میں لے کر جائے۔ ایک سپاہی کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ رائتہ، سلاد اور پودینے کی چٹنی لے کر آیا۔
کپتان نے سپاہی کی کمر تھپتھپاتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے کہ ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں، انہیں اوپر سے آرڈر ملتے ہیں۔۔ یہ تو اپنے بچے ہیں۔۔ پھر اس سپاہی کے کان میں کچھ کہا تو اس نے کہا سر۔۔ میں نے آپ کی سٹڈی ٹیبل میں رکھ دی ہے۔۔

میں نے پوچھا کیا رکھ دی ہے؟ تو کپتان نے کہا میں نے اپنی دوا منگوائی تھی۔۔ وہ دوائی میں روز رات کو لیتا ہوں۔۔ یہ کون سی دوائی ہے؟۔ وہ گردوں کی صفائی کی دوائی ہے جو مجھے ہمارے اینکر دوست ہارون الرشید نے تجویز کی تھی۔۔ بہروز سبزواری کے ساتھ بیٹھ کر بھی یہ دوائی میں نے بہت پی ہے۔ کچھ اور بھی ہیں دوائیاں لیکن آپ ان ظالموں کے جبر دیکھیں۔
یہ لوگ مجھے دہشت گرد سمجھتے ہیں مجھے انہوں نے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔۔ لیکن میں سمجھوتہ نہیں کروں گا۔۔ میں ان کے سامنے جھکوں گا نہیں۔۔ یہ تم نے میرے کارکنوں کو بتانا ہے۔ تمہیں یہ بتا دوں کہ جب تم میری تکالیف یو ٹیوب چینل پر بتاؤ گے تو تمہیں ایک ہی روز میں دس لاکھ سے زیادہ فالوورز اور ویوز مل جائیں گے۔۔۔
میری باچھیں کھل اٹھیں۔۔ اچھا سر بتائیں میں کیا بتاؤں اپنے وی لاگ میں؟۔۔ میں نے جذباتی ہو کر پوچھا۔۔

بس بتاؤ میری قوم کو کہ میں کن مشکل حالات میں یہاں رہ رہا ہوں۔۔ تنگ اور بے رونق سی بیرک۔۔ کھانے میں یہ مجھے زہر دے رہے ہیں تاکہ میں مر جاؤں لیکن فرشتے میری حفاظت کرتے ہیں تاکہ میں ان سے انتقام لوں۔۔ بتاؤ کہ مجھ پر جیل میں تشدد ہوتا ہے۔۔ یہ مت کہنا کہ شہباز گل والا۔۔ بس جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں، مجھ پر سخت تشدد کیا جاتا ہے۔
کھانے پینے میں مجھے دال دی جاتی ہے، سخت گرمیوں میں پنکھا بھی بند کر دیتے ہیں۔۔ ٹائلٹ کی سہولت بھی نہیں مجھے اڈیالہ کے کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔ بس تم اتنی ہی باتیں بتاؤ گے تو دیکھنا کیسے میرے لوگ سوشل میڈیا پر تمہیں فالو کریں گے اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کریں گے تمہارا نام بھی مشہور ہو جائے گا۔
لیکن سر۔۔ آپ نے تو دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ آپ کو لوگوں سے ملنے جلنے کی بھی آزادی ہے، آپ کو روز دیسی مرغ اور مٹن دیا جاتا ہے۔ آپ کو “دوائیاں ” بھی پولیس لا کر دیتی ہے۔۔ آپ کو ورزش کے لیے جم کی سہولت موجود ہے، ٹی وی ہے، روم کولر اور اے سی ہے، کتابوں کی پوری لائبریری ہے۔۔ کس چیز کی کمی ہے؟۔
سنو۔۔ سنو۔۔ میری بات دھیان سے سنو۔۔ اگر تم یو ٹیوب پر فالونگ اور ویوز لاکھوں میں چاہتے ہو تو پھر وہ لکھو۔۔ ورنہ پھر میں سمجھوں گا کہ تم ایک پٹواری اور لفافہ قسم کے صحافی ہو۔۔ بولو۔۔ تمہیں کیا چاہیئے؟۔ شہرت اور دولت یا پھر سوشل میڈیا پر میرے ٹائیگرز کی گالیاں؟۔ کپتان دھاڑا۔

مزید پڑھیں: الیکٹرک بائیکس سے فحاشی کا خاتمہ

سر۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی بولوں گا۔ میں نے جلدی سے کپتان کی دست بوسی کی۔۔ کپتان نے مجھے شاباش دی۔۔پھر کان میں کہا دیکھو یہ دولت اور شہرت تمہاری منتظر ہے، بس اس میں سوال کرنا منع ہے، جو کہا جائے وہ لکھو اور بولو۔۔ تمہیں امریکا، انگلینڈ اور یورپ کی سیریں بھی کروائیں گے اور اچھے اداروں میں نوکری بھی۔ بس یہ بتانا ہے کہ یہ سب مظالم میں صرف اپنی قوم کے لیے جھیل رہا ہوں۔ ان کا مستقبل اچھا بنانے کے لیے سب جبر برداشت کر رہا ہوں۔۔ شاباش اب جاؤ۔۔ شہرت تمہاری منتظر ہے۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News