اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر ملک کی مختلف مذہبی اورسیاسی جماعتیں اور تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور فیصلہ سنانے والے ججز پر احمدیوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حال ہی میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے مبارک احمد کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ چھ فروری 2024 کو سنایا تھا۔ مگر دو روز قبل سوشل میڈیا پر بعض اکاؤنٹس کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشہیر کی گئی جس کے بعد مذہبی جماعتیں اس معاملے پر ہم آواز ہوگئی ہیں۔
مذہبی تنظیمیں چیف جسٹس سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون دان اوراس حوالے سے سوچ بوجھ رکھنے والے کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے موجود ملزم پر الزام تھا کہ اس نے تحریف شدہ قرآن کا ترجمہ تقسیم کیا۔ اس بارے میں عدالت نے کہا کہ 2021 میں اس حوالے سے قانون بنا لیکن قرآن طباعت سے متعلق 2011 سے قانون موجود ہے۔
ان کے بقول عدالت کا یہ کہنا غلط ہے کہ قانون 2021 میں بنا کیوں کہ قانون 2011 سے موجود ہے جس میں 2021 میں صرف اس حد تک ترمیم کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا یا دیگر الیکٹرانک ذرائع کے ذریعے تحریف شدہ قرآن یا اس کے ترجمے کی ترویج نہیں کی جاسکے گی۔ لہذا جب 2019 میں یہ جرم ہوا تو اس وقت قرآن کے تحریف شدہ ترجمے کی اشاعت اور تقسیم غیر قانونی تھی۔
ان کے مطابق دفعہ 7 بی کے مطابق قرآن کا ترجمہ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک سقم یہ بھی ہے کہ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ دین میں جبر نہیں ہے اور کسی بھی مذہب کو اپنے اعتقادات کی ترویج کی اجازت ہے۔ لیکن اس بارے میں آئین کے آرٹیکل 20 کی تشریح اور امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
ان کے بقول سپریم کورٹ امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 میں قرار دے چکی ہے کہ قادیانیوں کو اپنی چار دیواری کے اندر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شعار اسلام کو اپناتے ہوئے اپنے مذہب کی ترویج کرسکیں۔ اس صورتِ حال میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ دو رکنی بینچ پر بائنڈنگ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی فیصلہ ہے کہ احمدیوں کو ایسی چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس کے ذریعے وہ خود کو مسلمان ظاہر کر سکیں۔
اس حوالے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک قادیانی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے قادیانیوں کو مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے جو کہ مذہب، قانون اور آئین سے متصادم ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مغربی خواہشات کے تابع کیا گیا ہے جس میں قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں ۔
انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ سے درخواست کی کہ وہ تمام مذہبی جماعتوں اور آئینی ماہرین سے رابطہ کر کے لائحہ عمل بنائیں تاکہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف سے کےماہر قانون اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ وکلا کے ساتھ فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اسی طرح نائب امیر جماعت اسلامی اور سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے بھی کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ مبارک احمد ثانی کیس میں آئین، قانون اور قرآن و سنت کی تشریح درست نہیں کی، بحیثیتِ مجموعی پوری قوم کا مؤقف ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کتاب تفسیر صغیر فساد کی بنیادی جڑ ہے، قادیانی آئینِ پاکستان کے مطابق غیر مسلم ہیں، اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں، عقیدہ ختمِ نبوتﷺ کا تحفظ ہر قانون سے بالاتر ہے،
ناموسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور عقیدہ ختمِ نبوت ﷺکی مخالفت میں ہر تبلیغ، ترویج، اشاعت پاکستان میں غیرقانونی ہے،آئین کے آرٹیکل 22 کا اطلاق قادیانیوں پر اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک آئین کے فیصلہ کو تسلیم کرکے اپنے آپ کو غیرمسلم گروہ میں شامل کرنے کا اعلان نہ کردیں، قادیانی استعماری مغربی قوتوں کی ناجائز کاشت ہے، جس کا کام سراسر فساد پھیلانا ہے، قادیانی اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کرلیں، انہیں آئین کے مطابق تمام بنیادی حقوق مل جائیں گے. سپریم کورٹ بنچ نے ضمانت درخواست میں غیرضروری، قرآن و سنت سے متصادم تشریحات کے ذریعے خود ہی اعلیٰ ترین عدالت کو متنازعہ بنالیا ہے،
ملی یکجہتی کونسل سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن میں فریق بننے کی درخواست دے رہی ہے، پورے ملک میں خطباتِ جمعہ میں علماء کرام اور نمازیوں نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کو قرآن و سنت اور آئینِ پاکستان کے منافی قرار دیا ہے،
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس حوالے سے آوازاٹھائی ہے ۔
سوشل میڈیا صارفین فیصلے کے خلاف سراپااحتجاج ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری اپنی سپریم کورٹ سے ایسے فیصلے کی توقع نہیں تھی۔
ان کے مطابق آج ہی کے دن کینیڈا کے شہر لندن، اونٹاریو میں پاکستانی نژاد خاندان کے چار افراد کو جان بوجھ کر اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے والے نیتھینیل ویلٹمن کو دہشتگردی کا مجرم بھی قرار دیدیا گیا ،اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں انصاف کا بول بالا ہے ۔
اسی طرح ہمارے ملک کے آئین وقانون کے مطابق قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور وہ اپنے مذہب کی کھلے عام تبلیغ یا اس طرح کی دوسری کوئی بھی سرگرمی نہیں کرسکتے۔
سوشل میڈیا صارفین کے مطابق آئین وقانون کے تحت قادیانیوں کو کسی قسم کی مذہبی آزادی کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔
معاملہ کیا ہے؟
چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوتﷺ فورم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر تفسیرِ صغیر 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔