جمعه,  20  ستمبر 2024ء
بلاوا۔۔۔!!

کرنل کی ڈائری سے

(2018 میں حج کی ادائیگی اور بلاوے کی حقیقت کا احوال)

2017 میں میری تعیناتی جنرل ہیڈکوارٹرز، راولپنڈی (جی ایچ کیو) میں تھی۔ سرکاری حج کی قرعہ اندازی کے بعد آرمی حج وفد کے نام بھی حتمی ہو چکے تھے۔ ایسے میں حج سے تقریباً بیس دن قبل ہمارے دفتر میں ایک مراسلہ موصول ہوتا ہے جس کے مطابق جی ایچ کیو کو سعودی سفارت خانے کی جانب سے مجاملہ ویزہ کی کچھ آسامیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ اب ان آسامیوں کی منصفانہ تقسیم کے لیے ہمارے ڈائریکٹوریٹ سے قرعہ اندازی کے بعد ایک خوش نصیب کا نام برانچ میں جانا تھا۔ جہاں ایک بار پھر قرعہ اندازی سے پوری برانچ میں سے دو یا تین خوش نصیبوں کے نام حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حتمی ہونے تھے۔ یہی طریقہ کار جی ایچ کیو کی تمام برانچوں میں اپنایا گیا۔

تمام خوش نصیب افراد کو وقت کی کمی کے باعث اپنے اپنے پاسپورٹ دو دن کے اندر اندر متعلقہ برانچ میں ویزے کے حصول کیلئے جمع کرانے کی شرط لازم تھی۔ اس مجاملہ ویزہ میں خوش نصیب افرد کو سعودی سفارت خانے کی جانب سے صرف مفت ویزے کی سہولت میسّر کی جاتی ہے جبکہ جہاز کے ٹکٹ، مکہ و مدینہ میں قیام و طعام اور دورانِ حج سفری سہولیات کا انتظام حجاجِ کرام کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس قلیل مدت میں یہ کام خاصہ دشوار معلوم ہوتا ہے۔۔۔

اس نامہ کی موصولی پر ہمارے دل میں بھی حج کرنے کی تمنا جاگی مگر پاسپورٹ کی مدتِ میعاد کا اختتام ہماری اس قرعہ اندازی سے باہر ہونے کی وجہ بنی۔ ہمارے ڈائریکٹوریٹ میں لیفٹیننٹ کرنل امین الحق کا پاسپورٹ ساری شرائط پر پورا اترتا تھا۔ کرنل صاحب جی ایچ کیو میں مذہبی امور سیکشن کے انچارج تھے اور میرے برابر والے ڈیسک پر ہی تشریف فرما تھے۔ یوں ڈائریکٹوریٹ اور برانچ کی قرعہ اندازی میں کرنل امین الحق کامیاب قرار پائے اور ہم حاضری کی تمنا دل میں لیے ہی رہ گئے۔ دفتر کے تمام افراد کرنل امین کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ جو کوئی ان کو مبارک باد دیتا تو یہ ضرور کہتا کہ سر آپ کا بلاوا تھا۔ میں اس بلاوے کی حقیقت سے اس وقت تک ناآشنا رہا جب تک اگلے سال میرا اپنا بلاوا نہ آ گیا۔ کرنل امین حج کی ادائیگی سے واپس آئے تو ہم سب نے ان کو ایک بار پھر مبارک باد دی اور ان کے ڈیسک پر جا کر آبِ زم زم پیا اور مدینہ منورہ کی کھجوریں بھی کھائیں۔ اگلے کئی روز تک ہم ان سے سفرِ حجاز کے قصے سنتے رہے۔ ہر قصے کے ساتھ ہمارا شوقِ حاضری بڑھتا چلا گیا۔

وقت گزرنے کی رفتار کا اندازہ تب ہوا جب 2018 کو ایک بار پھر سے ویسا ہی پیام موصول ہوا۔ یہ وہی دن تھا جب میں اپنی دس دن کی حاصل شدہ چھٹی ازخود منسوخ کرا کے دوبارہ نوکری کے لیے حاضر ہو گیا تھا۔ اس کی اصل وجہ تو حج کے لیے میرا بلاوا تھا مگر میری سوچ یہ تھی کہ دوبارہ چھٹی ایسے حاصل کروں گا کہ وہ عید الاضحیٰ کے ساتھ ہی مل جائے۔ مجاملہ ویزے کی بابت یہ خط اس بار بھی حج سے تقریباً بیس دن پہلے موصول ہوا۔ پاسپورٹ والی شرط پھر سے لاگو تھی اور خوش نصیب افراد نے پاسپورٹ اگلے دو دن تک ویزہ کی تکمیل کے لیے لازمی جمع کروانے تھے۔ میں نے اللہ کا نام لے کر قرعہ اندازی میں اپنا نام شامل کرا لیا۔

دھڑکتے دل کے ساتھ تمام اہل افراد قرعہ اندازی کے لیے کرنل گلزار (مرحوم) کے دفتر میں پہنچ گئے۔ کرنل گلزار ہمارے ڈائریکٹوریٹ کے کوآرڈینیش انچارج تھے اور خود بھی مجاملہ ویزہ کے براہ راست کوٹے پر حج کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ کچھ ہی عرصہ قبل یہ بہت ہی پیارے انسان اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ قرعہ اندازی سے قبل ہی کرنل طارق صلاح الدین جن کا نام اس قرعہ اندازی میں شامل تھا یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر ان کا نام کا قرعہ نکلا تو وہ میرے حق میں دستبردار ہو جائیں گے کیونکہ وہ پہلے ہی حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ یوں میرا نام نکلنے کے امکانات کچھ بڑھ گئے۔ قرعہ اندازی ہوتی ہے اور اللہ جل جلالہ کے کرم سے قرعہ میں میرا نام ہی نکل آتا ہے۔ اس بار قرعہ اندازی صرف ڈائریکٹوریٹ میں ہی ہونی تھی اس لیے میں اس سال بیت اللہ کی حاضری کے لیے چن لیا گیا تھا۔

حج کے لیے چنے جانے کی خوشی اپنی جگہ تھی مگر میرا ذہن میرے پاسپورٹ کی طرف تھا جس کی مدتِ میعاد ختم ہو چکی تھی اور میں نے اپنا پاسپورٹ دو دن کے اندر اندر ویزے کے اندراج کے لیے لازمی جمع کروانا تھا۔ میں نے فوراً اپنے بھائیوں وقار عمران، افتخار احمد خان اور شہریار خان کو فون کر کے حج پہ جانے کی خوشخبری سنائی اور ساتھ ہی پاسپورٹ کی بابت دریافت کیا۔ مجھے بھائیوں نے اسی وقت پاسپورٹ آفس اسلام آباد پہنچنے کا کہا۔

اپنے دفتر سے پاسپورٹ بنوانے کا این او سی حاصل کرتے ہی میں پاسپورٹ آفس اسلام آباد پہنچ گیا افتخار احمد خان اور شہریار خان وہاں پہلے سے موجود تھے اور میرا اور میری اہلیہ کا ارجنٹ پاسپورٹ بنوانے کا انتظام کر چکے تھے۔ میں ڈی جی پاسپورٹ جناب عامر احمد علی جنھوں نے بعد ازاں بطور چیف کمشنر اسلام آباد بھی ڈیوٹی سر انجام دی کا خاص طور شکر گزار ہوں کہ انھوں نے خصوصی شفقت فرمائی اور ایک دن کے اندر اندر میرا اور اہلیہ کا پاسپورٹ ہمارے حوالے کر دیا۔ میرے چھوٹے بھائی شہریار خان کی عامر احمد علی صاحب سے اچھی دوستی ہے۔ جب ان کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ عامر احمد علی سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کی تربیت کے آخری مرحلے میں کھاریاں چھاؤنی میں اسی بریگیڈ میں بھیجے گئے تھے جس میں، میں بطور کیپٹن تعینات تھا۔ یہ 1998 کی بات تھی۔ جناب عامر احمد علی نے کمال کی یاداشت پائی ہے، بیس سال کے طویل عرصے کے بعد بھی مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔

وقت مقررہ پر اپنا اور اہلیہ کا پاسپورٹ جمع کرایا تو جواب آیا کہ اس ویزہ کا حصول اہلیہ کے لیے میسّر نہیں ہے میں نے متعلقہ افسر سے درخواست کی کہ وہ میری اہلیہ کا پاسپورٹ سعودی سفارت خانے تک جانے دیں اگر قسمت میں ہوا تو ویزہ لگ جائے گا۔ ادھر میں نے اہلیہ کو یہ خبر سنائی تو وہ رو دیں اور مصّلہ پکڑ لیا۔ 6 اگست رات آٹھ بجے متعلقہ افسر سے بات ہوئی تو میرا ویزہ لگنے کی خوشخبری موصول ہوئی میری اہلیہ کی دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ اگلے دن جی ایچ کیو میں متعلقہ افسر کے دفتر سے اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے پہنچا تو دیکھا کہ اہلیہ کے پاسپورٹ پر بھی ویزہ کی مہر ثبت ہو چکی تھی یوں بلاوے کی حقیقت پر ایمان اور پکا ہو گیا۔

اس مراحلے کے بعد حج کے لیے ضروری سامان کی خریداری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مگر سب سے ضروری کام جہاز کی ٹکٹوں کی دستیابی تھا۔ میرے دو کورس میٹ لیفٹیننٹ کرنل افتخار حسین اور میجر انور بھی مجاملہ ویزے کے تحت حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے جا رہے تھے۔ ان سے رابطے پہ ہم نے اکھٹے سفر کا ارادہ کر لیا۔ ایک ساتھ چھ ٹکٹوں کی عدم دستیابی پہ میجر انور ہمارے گروپ سے الگ ہوگئے۔ حج کے لیے زیادہ تر فلائٹس حجاجِ کرام کو لیکر حجازِ مقدس جا چکی تھیں، اس لیے ہمیں ٹکٹوں کے حصول میں خاصی دشواری کا سامنا رہا۔ بہرحال ہمارا ایمان تھا کہ یہاں تک سبب بنا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ آگے بھی مدد فرمائے گا۔ بالآخر کرنل افتخار حسین نے سعودی ایئر لائن سے چار ٹکٹوں کی بکنگ کرا دی۔

یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حج کے اخراجات کے لیے میرے پاس رقم موجود نہیں تھی۔ تو اس کارِ خیر کو انجام دینے کے لیے میں نے اپنی گاڑی بیچنے کا ارادہ کر لیا۔ یہ خبر جب میری خوشدامن کو ملی تو انھوں نے فوراً آٹھ لاکھ کا چیک میرے بے حد انکار کے باوجود قسم دے کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے غیبی مدد سے وہ رقم مجھے بغیر سوال کے بطور ادھار دلا دی۔ یہ رقم میری خوشدامن نے اپنے حج کے لیے مختص کی ہوئی تھی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت دیکھیں کے حج سے واپسی مجھے وہی رقم جو میں نے ادائیگی حج کے لیے بطور ادھار قبول کی تھی ایک ایسی انویسٹمنٹ کے ذریعے بطور منافع مل گئی جس کا مجھے گمان بھی نہ تھا۔ یوں ہمارا حج اور قرض دونوں ہی ادا ہو گئے۔

اسلام آباد میں واقع اعتماد ویزہ سینٹر میں ہمارا بایومیٹرک ہوا اور وہیں سے ہمیں سعودی عرب کی موبائل فون سروس کی مفت سمیں بھی مہیا کی گئیں۔ آخری مرحلے میں ویکسینیشن اور ضروری ادویات کی پیکنگ کے لیے راولپنڈی میں واقع مدينة الحجاج پہنچے وہاں میجر رفیق الدین ( ریٹائرڈ) سے ملاقات ہوئی۔ وہ حجاجِ کرام کو حج احسن طریقے سے ادا کرنے کی تربیت دے رہے تھے۔ انھوں نے ہمیں بھی چند ضروری ہدایات دیں جو دورانِ حج بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ میجر صاحب سے عزت و احترام کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔

یہاں میں اپنے بہت ہی محترم دوست کرنل افراز اسلم کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ ان کو جب میرے حج پہ جانے کی خبر ملی تو وہ اس کے بعد سے لے کر میری حج سے واپسی تک مسلسل میرے ساتھ رابطے میں رہے اور دورانِ حج بھی مکمل رہنمائی فرماتے رہے۔ وہ متعدد بار عمرہ و حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ میری حج ادائیگی سے واپسی پہ وہ خاص طور پہ مجھے حج کی مبارک باد دینے لاہور سے راولپنڈی پہنچے۔ اس کے علاوہ میرے ایک کورس میٹ کرنل جواد منیر جو میرے دل کے بہت ہی قریب ہیں اپنی اہلیہ کے ہمراہ آرمی حج وفد کے ساتھ حج کے لیے ہم سے پہلے ہی مکہ مکرمہ روانہ ہو چکے تھے۔ ہم دونوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری ملاقات مکہ مکرمہ میں بھی ہو جائے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قبول فرمائی۔ ہم دونوں نے مل کے خانہ کعبہ کے سامنے خوب دعائیں مانگیں۔۔۔

یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ سعودی ایئر لائن سے ہماری فلائٹ شہرِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ شہرِ مدینہ پہنچے تو مشہور نعت کے اس شعر کا مطلب سمجھ آنے لگا۔۔۔
مدینے جا کے ھم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں۔۔۔
ہوا پاکیزہ پاکیزہ، فضا سنجیدہ سنجیدہ۔۔۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں قدم رکھتے ہی مدینہ منورہ سے محبت سی ہو گئی۔ لب پہ درودِ پاک اور لبیک اللہم لبیک کا ورد شروع ہو گیا۔ آنکھوں نے آنسوؤں کے ذریعے عاجزانہ سلام عرض کیا تو دل نے تیز تیز دھڑک کے اپنی محبت کا اظہار کیا۔۔۔

مدینہ منورہ میں احمد بھائی اور مرتضیٰ بھائی ہمارے میزبان تھے اور ہمیں لینے ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ یہ لیفٹیننٹ کرنل افتخار حسین کے ایک اور حوالے سے ہمارے میزبان بنے۔ مگر پہلی ہی ملاقات میں ایسا لگا کہ ہمارا اور ان کا کوئی بہت ہی پرانا تعلق ہے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جانے پہ بضد تھے مگر ہمارے بے حد اصرار پہ وہ ہمیں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل نزدیک ایک بہت اچھے ہوٹل پہ لے آئے۔ ہم جلدی جلدی نہا دھو کے روضہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کے لیے تیار ہوئے۔ مگر ہمارے میزبان ہمارے لیے سعودی عرب کے مشہور فاسٹ فوڈ ریستوران البیک کا کھانا لے آئے۔

کھانے کے فوراً بعد روضہء اقدس پہ حاضری کے لیے تیز قدموں کے ساتھ ہوٹل سے نکل پڑے۔ سبز گنبد پہ نظر پڑتے ہی دل کی وہ کیفیت ہوئی کہ اس کو الفاظ کا روپ نہ دے پاؤں گا۔۔۔

سبز گنبد پہ اب تک ٹکی ہے نظر، دل مدینے میں ہے!
ظاہراً یوں تو میں آگیا لوٹ کر٬ دل مدینے میں ہے!

وہ اک خواب سا تھا کہ میں روضہء اقدس کے سامنے کھڑا ہوں، دعائیں بھول چکا تھا بس درودِ پاک یاد رہا۔ وہاں مانگتا بھی تو کیا مانگتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عاجز غلام کو حج سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیا۔ میں تو یہی مانگتا تھا اور اب بھی یہی مانگتا ہوں۔۔۔

ہاتھ سنہری جالیوں کو پکڑ کر معطر ہوئے تو لب جالیوں کو چوم کر پاک ہوئے، پرنم آنکھیں عقدت کا نظرانہ پیش کرتی رہیں۔۔۔

جالی کے آس پاس ہی سب انتظام ہو گیا۔۔۔
کانوں میں کہہ دیا گیا جا تیرا کام ہو گیا۔۔۔

روضہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری جالیوں کے پاس سے قدم آگے چلنے کو تیار ہی نہ تھے مگر سیکورٹی پر مامور شخص نے ہمیں آگے کر دیا کہ عشاقِ رسول اور بھی تھے انتظار میں۔ نماز عشاء ادا کی اور نوافل پڑھے۔ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رونق اب تک دل میں بسی ہے۔

اگلے دن صبح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن سے گزرتے ہوئے میری اہلیہ نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں ہیں اور یہاں کی کھجوریں اب تک نہیں کھائیں۔ ابھی شاید اس خواہش کا اظہار جملے کی صورت میں زبان سے مکمل ادا بھی نہ ہوا تھا کہ ایک خاتون ناجانے کہاں سے نمودار ہوئی اور کھجوروں سے بھرا ڈبہ اہلیہ کے اگے کر دیا جس میں سے ہم سب نے کھجوریں کھائیں۔ ہم نے صرف سنا ہی تھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار پہ دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں مگر اتنی جلدی قبولیت ہمارے لیے معجزے سے کم نہ تھی۔

دوپہر کو احمد بھائی اپنی گاڑی میں ہمیں زیارات کے لیے لے گئے۔ وہاں ھم نے مسجدِ قباء، مسجدِ قبلتین، جنت البقیع، احد پہاڑ اور دیگر زیارات دیکھیں۔ زیارات کے بعد وہ ہمیں مشہور ‘وادی جن’ لے گئے۔ یہ وادی مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی سمت پینتیس کلو میٹر پہ واقع ہے۔ ‘وادی جن’ میں نظر کے دھوکے کو جس میں گاڑیاں اور دیگر چیزیں بغیر طاقت لگائے اونچائی کی طرف جاتے محسوس ہوتی ہیں بیشتر لوگ جنات کی کرامات سمجھتے ہیں۔ یہاں سے واپسی پہ وہ ہمیں اپنے کھجوروں کے باغ میں لے گئے۔ باغ کی تازہ عجوہ کھجوریں وہاں بھی کھائیں اور ڈھیر ساری کھجوریں انھوں نے ہمیں بطور تحفہ ساتھ بھی دیں۔ اس کے علاوہ آج تک یمارے یہ بھائی عجوہ اور امبر کی شاندار کھجوریں اور آبِ زم زم ہمیں پاکستان بھیجتے رہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے رزق میں کشادگی، برکت اور اپنا فضل شامل فرمائے، آمین۔

رات کو پھر مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری دی۔ دل اداس تھا کہ اگلی صبح ہمیں شہرِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیرباد کہنا تھا۔ اگلے دن صبح ٹیکسی ہوٹل پہ ہی آ گئی۔ ہم نے آسانی کے لیے احرام ہوٹل سے ہی باندھ لیا ورنہ میقات مدینے سے کافی آگے تھا۔ البتہ راستے میں نماز اور طعام کے لیے قیام کیا۔

مکہ مکرمہ میں ہماری رہائش کا بندوست کرنل گلزار ( مرحوم) نے پہلے ہی کر دیا تھا۔ یہ ایک گھر کے اوپر والے پورشن کے دو کمرے تھے جو ایک پاکستانی نے مناسب کرائے پہ ہمیں دے دیئے تھے۔ یہ رہائش حرم سے پیدل صرف دس سے بارہ منٹ کی مسافت پر واقع تھی۔ جس گلی میں یہ گھر واقع تھا اس کے شروع میں بہت سے ہوٹل حجاجِ کرام کی رہائش کے لیے پہلے سے بک ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستانی، بنگالی اور انڈین رستوران بھی اس گلی کی رونق میں اضافہ کر رہے تھے۔ ہم نے اپنا اپنا سامان کمروں میں رکھ دیا اور عمرے کے ادائیگی کے روانہ ہو گئے۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد ہم کرنل افتخار کے ایک دوست جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے کے بے حد اصرار پہ عزیزیہ کے نزدیک ان گھر جا کر ٹھہر گئے مگر اگلے ہی دن ہم نے ان سے اجازت طلب کی اور واپس حرم کے نزدیک والے گھر میں ہی آئے گے۔۔۔

ہم اپنی رہائش سے حرم کے لیے روانہ ہوتے تو حجاجِ کرام کی آمد و رفت سے پورے رستے میں رش ملتا۔ گلی کے بعد دو رویا سڑک شروع ہو جاتی تھی۔ جس کے دونوں اطراف میں دوکانیں اور ہوٹل حجاجِ کرام سے بھرے پڑے تھے۔ میں پہلی مرتبہ حرم کی حدود میں داخل ہو رہا تھا تو اپنی قسمت پہ رشک ہو رہا تھا کہ مجھ جیسے گناہ گار کو بھی اللہ جل جلالہ نے اپنے گھر بلا لیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ حرم کے اندر داخل ہوا کہ میں زندگی میں پہلی بار خانہ کعبہ کو سامنے سے دیکھنے جا رہا تھا۔ پھر پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو منظر دھندلا سا گیا۔۔۔ آنسو تھے کہ تھمنے میں نہیں آ رہے تھے۔۔۔میرے جسم کا ایک ایک عضو قسویٰ میں لپٹے اللہ کے گھر کے سحر میں گم ہو چکا تھا۔ بہت سی دعائیں سوچیں تھیں مگر کعبے پہ نظر پڑتے ہی کچھ لمحوں کے لیے سب کچھ ہی بھول گیا۔ تو زبان سے بے اختیار “ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ” ہی ادا ہو گیا۔۔۔ میں بہت دیر تک وہیں کھڑا خانہ کعبہ کا نظارہ کرتا رہا تو بالآخر کرنل افتخار حسین نے مجھے طواف شروع کرنے کا کہا۔ طواف کے آخری چکر میں نماز عشاء کا وقت ہو گیا۔ اس لیے آخری چکر تیزی سے مکمل کرنا پڑا۔ نماز عشاء سے فارغ ہو کر صفا مروہ کی سعی کی۔ آبِ زم زم پیا اور خوب پیا۔ عمرے سے فارغ ہوئے تو سر کی حجامت کرائی۔ رات دیر تک کعبے میں رہ کر خوب دعائیں کیں۔۔۔

اگلے دن صبح مکتب کے حصول کے لیے متعلقہ دفتر (سروس سینٹر) پہنچے۔ اس دفتر کو ڈھونڈنے میں کافی دقت پیش آئی۔ خدا خدا کر کے سروس سینٹر پہنچے تو وہ حجاجِ کرام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ وہاں ٹوکن سسٹم تھا۔ طویل انتظار کے بعد ہماری باری آئی مکتب کے بارے میں بتایا گیا۔ مکتب کی فیس کی ادائیگی کے بعد قربانی کے لیے مختص سینٹر میں فیس ادائیگی کے بعد رسیدیں حاصل کی۔

اگلے دن یعنی 8 ذی الحجہ کو ہم نماز فجر ادا کر کے منیٰ کے لیے روانہ ہوئے تو ہم نے بس کے بجائے ٹیکسی میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ٹیکسی اور دیگر پرائیوٹ گاڑیوں کو ایک خاص حد تھے آگے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ تو ٹیکسی نے ہمیں اس جگہ تک چھوڑ دیا۔ اس کے بعد پیدل سفر شروع ہوا۔ ہمارے ساتھ دیگر حجاجِ کرام کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ راستے میں جگہ جگہ پانی کا چھڑکاؤ ہو رہا تھا تاکہ شدید گرمی میں کوئی ہیٹ اسٹروک کا شکار نہ ہو جائے۔ ہم نے جس جگہ سے پیدل سفر شروع کیا تھا وہاں سے مکتب شروع ہو چکے تھے، مگر ہمارا مکتب آخری سرے اور خاصی اونچائی پہ واقع تھا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے ہم غلط سمت میں کافی دور تک چلے گئے، یوں شدید گرمی میں ہمارا پیدل سفر خاصہ طویل ہو گیا۔ مگر ہماری سوچ یہ تھی کہ اس چلنے کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا۔ خیر راستہ پوچھتے پوچھتے ہم خاصہ چلنے کے بعد اپنے مکتب کے نزدیک پہنچ گئے۔ مگر یہ مکتب خاصی اونچائی پہ واقع تھا۔ اتنے طویل سفر کے بعد مکتب تک پہنچنے کے لیے اچھی بھلی چڑھائی والی سڑک پہ پیدل چلنا خواتین کے لیے خاصہ دشوار ہو چکا تھا۔ اللہ اللہ کر کے مکتب میں پہنچے۔ یہاں پہ خاصی بد انتظامی دیکھنے میں آئی۔ خواتین کو ایک ٹینٹ میں جگہ مل گئی۔ مردوں کے ٹینٹ میں جگہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستانی حجاج کرام کا ایک گروپ باہر ہی بیٹھ گیا۔ عصر کے وقت گرد آلود تیز ہواؤں کا طوفان شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ مغرب کی نماز تک چلتا رہا۔ رات ٹینٹ کے باہر ہی بسر ہوئی۔ اگلی صبح مکتب کے سعودی ملازمین نے ہمارے لیے ٹینٹ کے اندر ہمیں جگہ لے کر دی۔

مدینے منورہ میں کھجوروں والے واقعے کی طرح منیٰ میں بھی ایک معجزہ رونما ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہم اپنے تینوں بچوں کو ان کی خالہ کے گھر چھوڑ کر حج کرنے گئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ہم دونوں کے بغیر کسی بھی رشتے دار کے یہاں ٹھہرے تھے۔ میرا ان سے رابطہ کرنے کو دل چاہ رہا تھا تاکہ ان کی خیریت دریافت کر سکوں اور وہ بھی مجھ سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ مگر میرے پاس موبائل ڈاٹا نہیں تھا۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ میرے موبائل فون پہ ناجانے کہاں سے اوپن وائی فائی کے سگنلز آتے ہیں۔ مجھے بچوں کی کال آتی ہے اور کال ختم ہونے کے ایک دو منٹ کے اندر اندر وائی فائی کے وہ سگنلز غائب ہو جاتے ہیں اور پھر دوبارہ کبھی نہیں آتے۔

منیٰ میں 8 ذی الحجہ کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء ادا کر کے 9 ذی الحجہ کو فجر پڑھ کر میدانِ عرفہ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہاں ظہر اور عصر ملا کے پڑھی جاتی ہے اور پھر مسجد نمرہ سے حج کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ ھم بس میں سوار ہو کے میدانِ عرفات پہنچے۔ ہمارا کیمپ مسجد نمرہ کے بالکل نزدیک تھا۔ میں نماز سے پہلے مسجد کے اندر کیا نوافل ادا کئے۔ پھر جماعت کے ساتھ ہی نماز ظہر اور عصر ادا کی۔ مسجد کے باہر سے صفوں کا سلسلہ ہمارے کیمپ کے باہر تک موجود تھا۔ دراصل عرفہ کا قیام ہی حج کا اصل ہے۔ اس دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے اور میدانِ عرفات میں موجود حجاجِ کرام کے قریب ترین آ جاتا ہے۔ مسلم کی ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق عرفہ کے علاوہ اور کوئی دن ایسا نہیں جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتا ہے۔ اسی دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سب مسلمانوں کے لیے دل کھول کر مانگا۔ اللہ کی قدرت کے جس جس نے دعا کی درخواست کی تھی ان سب کا چہرہ خودبخود میری آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔

عرفات میں جگہ جگہ لوگ حجاج کرام کو پانی کی بوتلیں، جوس، کھجوریں، گرما گرم کھانا، جائے نمازیں اور چھتریاں بانٹ رہے تھے۔۔۔

مغرب کی اذان کے بعد مزدلفہ جانے کے لیے حجاج کرام کے قافلے تیار ہو گئے۔ یہ سفر ہم نے بس سے کیا۔ مزدلفہ پہنچ کر شرعی حکم کے مطابق مغرب اور عشاء کی نمازیں اکھٹی ادا کیں۔ اس کھلے میدان میں حجاج کرام نے رات گزارنی ہوتی ہے۔ سونے کی تیاری سے پہلے میدان سے شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں جمع کیں۔ مزدلفہ میں ہمیں سونے کی جگہ تو مل گئی مگر ہمارے پاس اس سخت زمین پہ بچھانے کو کچھ نہ تھا۔ میں اور کرنل افتخار حسین کہیں سے گتے کے ٹکڑے مانگ کر لے آئے اور ان گتے کے ٹکڑوں کو ہی بچھونا بنا کر سو گئے۔ صبح نماز فجر ادا کر کے جمرات جانے کا سفر شروع ہوا یہ سفر پیدل ہی طے کرنا تھا۔ راستے میں حجاج کرام کے رش کی وجہ سے ٹنل میں کہیں کہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ یہاں بھی راستے میں پولیس والے اور رضا کار حجاج پہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ ہم چاروں نے یہ پہلے سے طے کر لیا تھا کہ رش میں بچھڑنے کی صورت ہمیں کہاں کہاں اکھٹے ہونا ہے۔ اس کا فائدہ ہوا۔ شیطان کو کنکریاں مارتے مارتے کرنل افتخار حسین ہم تینوں سے بچھڑ گئے مگر پہلے سے طے شدہ جگہ پہ ہم پھر سے اکھٹے ہو گئے۔ شیطان کو کنکریاں مار کر واپس حرم کی طرف چل پڑے۔ اسی اثناء میں ہمیں ہماری قربانی مکمل ہونے کا میسج موصول ہوگیا۔ یعنی اب ہم حلق کرا کر حالتِ احرام سے باہر آ سکتے تھے۔ یہ دس ذالحجہ کا دن تھا جس دن ججاجِ کرام کے علاوہ لوگ عیدالاضحی مناتے ہیں۔ مکہ کی حدود میں آکر ہم نے سر منڈوائے۔ وہاں سے کمرے کا رخ کیا اور نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر طواف زیارت کے لیے حرم پہنچے یہاں مطاف میں جگہ نہ ہونے کے باعث اوپر والی منزل سے ہی طواف مکمل کیا۔ اور ایک دفعہ پھر منیٰ کے لیے رختِ سفر باندھا۔ یہاں رات گزار کر اگلے دن پھر جمرات میں شیطان کو کنکریاں ماریں۔ ہمارا حج مکمل ہو چکا تھا۔ اگلے دن طواف وداع کیا۔ واپسی پہ دل اداس تھا۔ ہم نے پھر سے اپنی حاضری کی دعا کی۔ ہماری اگلی منزل جدہ تھی۔ مکہ مکرمہ سے جدہ تک کا سفر ٹیکسی طے کیا۔ جدہ میں بھی افتخار حسین کے ایک رشتے دار کے مہمان بنے۔ جدہ کے بازار سے کچھ خریداری کی۔ رات کو ہمارے میزبان ہمیں کھانے کے لیے ایک بہت اچھے پاکستانی ریستوران میں لے گئے جہاں ہم نے پیٹ بھر کے پاکستانی کھانا کھایا۔ اگلے دن ہماری واپسی کی پرواز براہِ راست جدہ سے پشاور تھی۔ پشاور پہنچے تو ائیرپورٹ پہ ہماری آب زم زم کی بوتلیں ہمیں نہ ملیں۔ جس حاجی کے ہاتھ جو بوتل آئی وہ انھوں نے اٹھا لی لیکن ہم سے یہ نہ ہو سکا۔ اگلی فلائٹ کا انتظار کئے بغیر ہم نے راولپنڈی کے لیے کرائے پہ گاڑی بک کرائی اور دو گھنٹے میں راولپنڈی پہنچ گئے۔ الحمدللہ دورانِ حج صحت بالکل ٹھیک رہی مگر پاکستان پہنچتے ہی گلا بری طرح خراب ہو گیا یہاں تک کہ دو دن آواز بالکل بند رہی۔ جسم کے دردوں کا بھی اب پتا چلا۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پہ سی ایم ایچ والوں نے افسر وارڈ میں جمع کر لیا۔ ایک ہفتے بعد صحت بحال ہوئی تو مبارک باد دینے والوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔جو کوئی مجھ سے پوچھتا کہ ہم حج پہ کیسے جا سکتے ہیں تو میرا ایک ہی جواب ہوتا کہ نیت کرو لیکن جاؤ گے تب ہی جب وہاں سے بلاوا آئے گا۔۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News