وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دورہ چین کے دوران سی پیک کو نئے دور میں داخل کرنے کے لیے چینی قیادت کے ساتھ گفتگو کےخواہشمند ہیں ۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف چین کے پانچ روزہ سرکاری دورے کے پہلے مرحلے میں چین کے جنوب مشرقی شہر شینزن پہنچے ہیں۔
پاکستان میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ پہلا دورہ چین ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنے دورے کے دوران صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی کیانگ اور نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ژاؤ لیجی ان سے ملاقاتیں کریں گے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا شینزن ہوائی اڈے پر اعلی چینی حکام، پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زائیڈونگ، بیجنگ میں پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی اور اعلی سفارتی اہلکاروں نے استقبال کیا۔ وزیرِ اعظم سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے شینزن کے لیے سیکریٹری مینگ فینلی سےملاقات کی، جس میں چین پاکستان تعاون کے مزید فروغ پر گفتگو ہوئی۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کل (بدھ کو) پاک چائنہ بزنس فورم میں شرکت کریں گے. سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون و شراکت داری کے لیے یہ فورم ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔وزیرِ اعظم چینی ہائی ٹیک کمپنیوں کے سربراہان سے بھی ملاقات کریں گے۔پاکستانی وفد میں معروف پاکستانی کاروباری شخصیات سمیت نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگ زیب، وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک، وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وفاقی وزیرِ غذائی تحفظ رانا تنویر حسین، وزیرِ تجارت جام کمال خان، وزیرِ نجکاری عبدالعلیم خان اور وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ بھی شامل ہیں۔اس سے قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ دورہ چین کے دوران سی پیک کو نئے دور میں داخل کرنے کے لیے چینی قیادت کے ساتھ گفتگو کریں گے۔دورے سے قبل پاکستانی قوم کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ’چین کی پاکستان سے لازوال دوستی ہے۔
روز اول سے ہم ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ چین پاکستان دوستی کی نظیر ملنا مشکل ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چین کے ساتھ ہمارا تعلق ہمسایے کا تعلق ہے جو 75 سال پر محیط ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا غیر مشروط ساتھ دیا چین نے طوفان، جنگ، زلزلے میں ہمیشہ پاکستان کا بھائی کی طرح ساتھ دیا۔‘ان کے مطابق ’سی پیک کے ذریعے نواز شریف نے 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اہتمام کیا۔ ہمارا یہ دورہ اس دوستی کی ایک اور اونچی سمت متعین کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چینی صدر شی جن پنگ کی ویژن کی وجہ سے چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ چینی لیڈر شپ کا دل سے متعرف ہوں۔‘ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق دورے کے دوران پاکستان اور چین کے مابین نہ صرف سی پیک کے دوسرے مرحلے، اسٹریٹجک شرکت داری بلکہ تجارت و سرمایہ کاری، دفاع، قومی و علاقائی سلامتی، توانائی، خلائی تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و ہنر اور تقافتی شعبے میں تعاون کے فروغ پر گفتگو ہو گی۔وزیرِ اعظم کا دورہ چین دونوں ممالک کی شراکت داری کو مزید مثبت سمت دینے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔
اس دورے کے دوران وزیر اعظم بیجنگ کے علاوہ شیان اور شینزین شہروں کا بھی دورہ کریں گے۔بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک اور وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے اور وزیراعظم لی کیانگ سے وفود کی سطح پر بات چیت کریں گے۔وہ نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ژاؤ لیجیان اور اہم سرکاری محکموں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔وزیراعظم کے دورے کا ایک اہم پہلو تیل و گیس، توانائی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے متعلق معروف چینی کمپنیوں کے کارپوریٹ ایگزیکٹوز سے ملاقاتیں ہوں گی۔وزیراعظم شینزین میں چین پاکستان بزنس فورم سے خطاب کریں گے جس میں دونوں ممالک کے معروف کاروباری شخصیات، کاروباری شخصیات اور سرمایہ کار شریک ہوں گے۔وزیراعظم چین میں اقتصادی اور زرعی زونز کا بھی دورہ کریں گے اور پاک چین اقتصادی راہداری کو مزید بہتر بنانے اور تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ان مذاکرات میں سکیورٹی اور دفاع، توانائی، خلائی، سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کے اس دورے کے حوالے سے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں پاکستان چین دوستی کو ماؤنٹ تائی سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے انتہائی مضبوط اور مستحکم قرار دیا تھا۔ماؤنٹ تائی چین کے پانچ مقدس پہاڑوں میں سے ایک ہے اور اسے چین کے مذہب میں ایک کلیدی اہمیت حاصل ہےوزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق ’دونوں ممالک کے رہنما چین پاکستان تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کریں گے اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر لائحہ عمل تیار کریں گے۔‘گذشتہ شب چین کے دورے پر روانہ ہونے والے وفاقی وزیر منصوبہ احسن اقبال کے مطابق ’چین کے شہر شینزن میں پانچ جون کو منعقد ہونے والے بزنس فورم میں پاکستانی و چینی کمپنیوں کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بزنس فورم کے دوران پاکستان اور چینی کمپنیوں کے مابین تعاون اور شراکت داری کی مفاہمتی یاداشتوں و معاہدوں پر دستخط ہوں گے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چینی کمپنیوں اور پاکستانی کمپنیوں کے مابین شراکت داری سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ ہو گاپاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیدونگ نے کہا ہے کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ چین پاک چین تعلقات کی ترقی میں ایک اور سنگ میل ثابت ہو گاایک انٹرویو میں سفیر نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے رہنما دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے تاکہ ہماری سدا بہار اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ میں مزید پیش رفت ہو سکےچینی سفیر نے کہا کہ ’تاریخی بی آر آئی منصوبے سے مجموعی طور پر 25.4 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری، دو لاکھ 36 ہزار ملازمتیں، 510 کلومیٹر شاہراہیں، آٹھ ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی اور 886 کلومیٹر کور ٹرانسمیشن نیٹ ورک آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت دونوں ممالک ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن، گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن اور شاہراہ قراقرم فیز ٹو کی ری لائننگ سمیت اپنے رہنماؤں کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے پر عملدرآمد کریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا ’دونوں ممالک صنعت، زراعت، کان کنی، نئی توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں مقامی حالات کی بنیاد پر تعاون کو مضبوط کریں گے اور تجارتی لبرلائزیشن کو مزید فروغ دیں گے۔اس دورے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نےاسلام آباد میں مختلف وزرا کے ایک جائزہ اجلاس کی صدارت کی تھی جس کے دوران مختلف امور کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ شریک تھے۔ ان کے علاوہ وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک، وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان، وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام شزا فاطمہ، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان اور اعلیٰ سرکاری افسران بھی اس اجلاس کا حصہ تھے۔ جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چین میں تعینات پاکستان کے سفیر اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے۔اس دورے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نےکہا ہے کہ پاکستان ایک چین کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا ماننا ہے کہ تائیوان چین کا لازمی جزو ہے، یہ ہماری بنیادی پالیسی کا حصہ ہے اور اس پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔
شہباز شریف نے پاکستان کے کاروبار، صنعت، تجارت اور زراعت کو فروغ دینے میں چین کو ہمیشہ متحرک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان پانڈا بانڈز کے اجرا اور چینی یوآن میں لین دین میں توسیع کے خواہشمند ہیں۔ دورہ چین سے قبل چینی میڈیا کو انٹرویومیں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور چین دو آہنی بھائی ہیں، ہماری دوستی غیر متزلزل ہے اور ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چین نے مشکل ترین وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان چین کو دنیا بھر میں سب سے قابل بھروسہ دوستوں میں سے ایک سمجھتا ہے۔ پاکستان ایک چین کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا یہ عزم کبھی تبدیل نہیں ہوگا، پاکستان میں ہر شعبے سے وابستہ افراد میں یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ تائیوان چین کا لازمی جزو ہے، یہ بنیادی پالیسی کا حصہ ہے اور اس پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں نے چین کا پہلا دورہ 40 برس قبل کیا تھا اور میں نے اس وقت کہا تھا کہ اگرچہ چین پسماندہ ہے تاہم چین اپنے عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے عزم پر قائم ہے اور جدید سائنس ور ٹیکنالوجی میں بھرپور طریقے سے پیشرفت کررہا ہے، کہ آج چین وژن، محنت اور انتھک کوششوں سے ایک عظیم ملک بن چکا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں چین کے ساتھ اپنی دوستی ہمالیہ سے کہیں زیادہ بلند اور دنیا کے گہرے ترین سمندر سے زیادہ گہری کرنے کا عزم لیے مفید منصوبوں کے ساتھ چین کا دورہ کر رہا ہوں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ صدر شی کی قیادت میں چین نے اپنے کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا ہے، پاکستان ایسے ہی غربت کا خاتمہ کر کے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں چینی ماڈل سے استفادہ کرسکتا ہے اور یہ میرے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس دورے سے پاکستان دونوں ممالک میں کاروباری اداروں کے درمیان روابط کو فروغ، خصوصی اقتصادی زونز اور پاکستان کی افرادی قوت کے فوائد سے مشترکہ منصوبے بنانے، صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی منتقلی میں سہولت کی فراہمی اور پیداوار میں اضافے کی امید رکھتا ہے تاکہ توسیع شدہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں پیشرفت ہوسکے۔ چین کا تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو شریک ممالک کے لوگوں کو فائدہ پہنچائے گا، تعاون کو فروغ دے گا اور دنیا کو مشترکہ خوشحالی اور بہتر مستقبل کے وژن کی طرف لے کر جائے گا۔ پاکستان گلوبل ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سویلائزیشن انیشی ایٹو کے نفاذ میں چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہشمند ہے جس سے دنیا میں امن، سکون، ترقی اور خوشحالی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ، چین کے ساتھ اقتصادی تعاون میں پیشرفت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں چین کے جدید تجربے سے سیکھنے، دونوں ممالک کے درمیان آہنی دوستی مستحکم کرنے اور تیزرفتار ترقی کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے حکمرانی کے تجربے سے سیکھنے، اصلاحات اور انسداد بدعنوانی کو وسعت دینے سمیت پاکستان چینی سرمایہ کاروں کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے اور سرمایہ کاروں کو پالیسی معاونت فراہم کرنے کو تیار ہے اور وہ ایسے شعبوں پر توجہ مرکوز کررہا ہے جو معیشت کو جدید بناکر دونوں عوام کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ چین کے تعاون سے پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ اور ملٹی مشن کمیونیکیشن سیٹلائٹ کی لانچنگ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سائنسی اور تکنیکی تعاون نے پاکستان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملٹی مشن کمیونیکیشن سیٹلائٹ سے پاکستان کا موجودہ ڈیجیٹل ماحول تبدیل ہونے کی توقع ہے، پورے ملک کے لیے تیز رفتار انٹرنیٹ سہولیات فراہم ہوں گی، لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا اور ای کامرس اور آن لائن حکومتی امور اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔