وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت پر ایران کے شہر تہران میں تعزیتی تقریب میں وفد کے ہمراہ شرکت کی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم دفتر کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ان کے ہمراہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار ، وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی بھی ہمراہ ہیں۔ تہران پہنچنے کے بعد وزیراعظم تعزیتی ہال گئے جہاں انہوں نے ایرانی صدر اور رفقا کےجاں بحق ہونے پر ایرانی حکام سے اظہار تعزیت کیا۔ وزیراعظم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ امام خامنہ ای اور ایران نے قائم مقام صدر ڈاکٹر محمد مخبر سے ملاقات بھی کی اور پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا ۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والے ایرانی صدر ابرہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر عبداللہیان سمیت دیگر کی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی۔
صدر ابراہیم رئیسی اور دیگر کی نمازِ جنازہ سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای نے پڑھائی۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ نمازجنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جن میں متعدد ممالک کے رہنما بھی موجود تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی میتیں طیارے کے ذریعے تبریز سے تہران لائی گئیں، ایئرپورٹ پر جاں بحق ایرانی صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ایرانی صدر کو آبائی شہر مشہد میں امام علی رضا کے روضہ کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔گزشتہ روزابراہیم رئیسی اور دیگر کی آخری رسومات کی ادائیگی کا سلسلہ تبریز سے شروع ہوا تھا۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ بھی ابراہیم رئیسی اور دیگر حکام کی نمازہ جنازہ میں شریک ہوئے۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف ابراہیم رئیسی اور دیگر حکام کے انتقال پر تعزیت کے لیے آج ایران کا دورہ کریں گے۔ ہزاروں سوگوار شہری تبریز کی سڑکوں پر موجود تھے جہاں ایرانی حکام نے صدر رئیسی کے حوالے سے تقاریر اور ان کے لیے دعا بھی کی۔ تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں میں صدر رئیسی سمیت جاں بحق ہونے والے افراد کے بینرز بھی سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔ اس موقع پر ایرانی شہریوں کے ہاتھوں میں صدر رئیسی کی تصاویر تھیں۔یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر 19 مئی کو آذربائیجان کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آتے ہوئے موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ایرانی صدر، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام جاں بحق ہوگئے تھے۔ ایرانی حکام نے 20 مئی صبح ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت دیگر کی موت کی تصدیق کی تھی۔
ہیلی کاپٹر میں 9 افراد سوار تھے، جن میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، تبریز کے امام سید محمد الہاشم،صدر کے سکیورٹی یونٹ کے کمانڈر سردار سید مہدی موسوی، باڈی گارڈ اور ہیلی کاپٹر کا عملہ موجود تھے۔ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے کی تفصیلات سامنے آگئیں، حادثہ پیش آنے کے بعد ایک گھنٹے تک ہیلی کاپٹر انچارج زندہ تھے، تاہم دیگر حکام موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔ میڈیا مطابق ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ دیگر دو ہیلی کاپٹر بھی موجود تھے، دو ہیلی کاپٹرز نے سیف لینڈنگ کرلی تھی تاہم ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر نے ’ہارڈ لینڈنگ‘ کی جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔سیف لینڈنگ کرنے والے ایک ہیلی کاپٹر میں موجود ایرانی اہلکار غلام حسین اسماعیلی نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے 19 مئی کو دوپہر ایک بجے کے قریب آذربائیجان سے ٹیک آف کیا تھا، اس وقت موسم بالکل ٹھیک تھا۔
ایرانی اہلکار نے مزید بتایا کہ ’صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ قافلے کا انچارج تھے، اڑان بھرنے کے 45 منٹ بعد انہوں نے دیگر ہیلی کاپٹرز کے پائلٹس کو احکامات دیے کہ وہ قریب موجود بادل سے بچنے کے لیے اپنے ہیلی کاپٹروں کو مزید بلندی پر لے جائیں۔‘
تاہم صدر کا ہیلی کاپٹر، جو دو دیگر ہیلی کاپٹروں کے درمیان تھا، اچانک غائب ہو گیا۔
ایرانی اہلکار نے کہا کہ بادلوں کے اوپر سے اڑان بھرنے کے 30 سیکنڈ کے بعد ہمارے پائلٹ نے دیکھا کہ درمیان میں موجود ہیلی کاپٹر غائب ہو گیا ہے، پائلٹ نے صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے چکر لگانے۔
غلام حسین اسماعیلی نے کہا کہ ریڈیو ڈیوائسز کے ذریعے صدر کے ہیلی کاپٹر سے رابطہ کرنے کی کئی کوششوں کے بعد ہیلی کاپٹر نہیں ملا، گھنے بادلوں کی وجہ سے ہمارا پائلٹ پرواز کو نیچے اس لیے نہیں لا سکتا تھا جس کی وجہ سے بائلٹ نے اپنی پرواز جاری رکھی اور قریبی تانبے کی کان پر اسے اتار لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ امیرعبداللہیان اور صدر کے پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ کو کئی بار فون کیا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ ایرانی اہلکار کا کہنا تھا کہ دو دیگر ہیلی کاپٹروں کے پائلٹس نے صدر کے ہیلی کاپٹر کے انچارج کیپٹن مصطفوی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جنہوں نے فون اٹھایا وہ تبریز میں نماز جمعہ کے امام محمد علی آل ہاشم تھے، جن کی حالت ٹھیک نہیں تھی، تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ صدر کا ہیلی کاپٹر وادی میں حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب دوبارہ رابطہ کیا تو آل ہاشم نے یہی بات دہرائی کہ ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم جائے حادثہ پر پہنچے تو آیت اللہ رئیسی اور دیگر حکام موقع پر ہی جاں بحق ہوچکے تھے لیکن محمد علی آل ہاشم کی موت حادثے کے متعدد گھنٹے بعد ہوئی تھی۔یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر 19 مئی کو آذربائیجان کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آتے ہوئے موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ایرانی صدر، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام جاں بحق ہوگئے تھے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے کہ خراب موسم میں45 سال پرانا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا ذمہ دار ایران ہے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہیلی کاپٹر حادثےکے بعد ایران نے مدد طلب کی تھی، تاہم لاجسٹک وجوہات کے باعث ایران کی درخواست قبول نہیں کرسکے۔ میتھیو ملر کا مزید کہنا تھا کہ خراب موسم میں 45 سال پرانا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کاذمہ دار ایران ہے۔
ایران نے اپنے ہوائی جہاز کو دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایرانی حکومت پر پابندیوں کا عمل جاری رکھیں گے، ایرانی عوام کی بنیادی آزادیوں کے لیے جدوجہد کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار امریکا کو قرار دیا۔ سرکاری میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کی ذمہ داری امریکی پابندیوں پرعائد ہوتی ہے، امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی ایوی ایشن انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایرانی عوام امریکی حکومت کے جرائم کو فراموش نہیں کریں گے اور ایران عوام کے تعاون سے تمام مشکلات پرقابو پالے گا۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کا تجزیہ کرتے ہوئے ترک میڈیا نے کئی غیرمعمولی باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آخر ایرانی صدر نے تیس برس پرانا امریکی ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا اور یہ بھی کہ مسافروں کی ترتیب کیوں تبدیل کی گئی۔ روسی میڈیا نے ترکیے اخبار کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کے صدر اپنے دوروں میں عام طور پر روسی ساختہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے تاہم تبریز جانے کے لیے امریکی ساختہ بیل 212 Bell ہیلی کاپٹر چنا گیا۔ یہ بھی کہ صدر کے لیے پائلٹ کا چناؤ ماضی میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں میں سے کیا جاتا تھا تاہم اس بار انکے پائلٹ کا تعلق آرمی سے تھا۔ صدر کے ہیلی کاپٹر میں تین مختلف ٹریکنگ نظام نصب تھے جن میں جی پی آر ایس اور ٹرانسپونڈرز بھی شامل تھے مگر اسکے باوجود حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کے مقام کا فوری تعین نہیں کیا جاسکا۔ ترک حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ ہیلی کاپٹر کے سگنل نوٹ نہیں کرسکے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یہ نظام بند تھا یا موجود ہی نہیں تھا۔ ایرانی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ پرواز سے کچھ ہی دیر پہلے مسافروں کی ترتیب بھی بدلی گئی تھی۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور تبریز کے گورنر مالک رحمتی کو ہیلی کاپٹر نمبر دو میں سفر کرنا تھا مگر آخری لمحے تبریز کے پیش امام محمد آل ہاشم کو بھی اتار دیا گیا۔ وزیر خارجہ، گورنر اور پیش امام تینوں ہی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر میں تھے اور حادثے میں انکے ساتھ ہی جاں بحق ہوئے۔ ایرانی حکام کے مطابق ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کے سبب حادثہ کا شکار ہوا۔یل 212 ہیلی کاپٹر دراصل یو ایچ ون این ٹوئن ہیلی کاپٹر کی ایک قسم ہے اور یہ ایک مسافر ہیلی کاپٹر ہے جسے ویتنام جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔
یہ ہیلی کاپٹر سرکاری اور نجی آپریٹرز دونوں استعمال کرتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر 1960 کی دہائی میں کینیڈین فوج کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ ہیلی کاپٹر کا نیا ماڈل تھا۔ نئے ڈیزائن میں دو انجن استعمال کیے گئے تھے اور نئے ہیلی کاپٹر میں مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش بھی پہلے سے زیادہ تھی۔ امریکی فوجی تربیت سے متعلق دستاویزات کے مطابق 1971 میں اس ہیلی کاپٹر کو امریکہ اور کینیڈا نے اپنے بیڑے میں شامل کر لیا تھا۔ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے اس کو اس طرح سے ماڈیفائی کیا گیا تھا یا اس میں ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں کہ اسے اعلیٰ سرکاری افسران اور رہنماؤں کے سفر میں استعمال کیا جا سکے۔ یہ ہیلی کاپٹر امریکی کمپنی بیل ٹیکسٹرون نے تیار کیا ہے۔ کمپنی کا مرکزی دفتر ٹیکساس میں ہے۔بیل ہیلی کاپٹر کے جدید ترین ماڈل بیل 412 کے بارے میں کمپنی کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق اسے پولیس، میڈیکل ٹرانسپورٹ، فوجیوں کی نقل و حرکت، توانائی کی صنعت اور آگ بجھانے کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس میں عملے سمیت 15 افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ بیل 212 ہیلی کاپٹر کی لمبائی 17 میٹر اور اونچائی تقریباً چار میٹر ہے۔ بیل 212 ہیلی کاپٹر کو چلانے پر تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار روپے فی گھنٹہ خرچ آتا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر 230 سے 260 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے دعوے کے مطابق 1972 سے 2024 تک بیل 212 کو لگ بھگ 432 حادثے پیش آ چکے ہیں جن میں تقریباً 630 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس قسم کا حادثہ ایران میں 2018 میں پیش آیا تھا تب اس حادثے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 2024 کی عالمی فضائیہ کی ڈائریکٹری کے مطابق ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس ایسے 10 ہیلی کاپٹر ہیں۔63 سالہ ابراہیم رئیسی 2021 سے ایرانی صدر کے منصب پر فائز تھے۔ ابراہیم رئیسی 1960 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور صرف صرف 20 سال کی عمر میں انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔ انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔ انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔ انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔
تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔ غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔ اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔سابق امیدوار برائے صدر پاکستان اصغرعلی مبارک نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ ایرانی صدر حجتہ الاسلام و المسلمین سید ابرہیم رئیسی کی شہادت عظیم سانحہ ہے سید محمد ابرہیم رئیسی عالم اسلام کے عظیم رہنما تھے جنہوں نےعالم اسلام کی وحدت اور مضبوطی کے لیے بھرپور کردار اور عملی اقدامات اٹھائے، آپ شہادت کے متمنی اور طلبگار تھے، یہ شہادت اسلام اور حمایت مظلومین کی تحریکوں کے لیے مضبوطی اور جلا کا باعث ہو گی،انہوں نے کہا کہ شہید سید ابرہیم رئیسی حرمت اسلام و قرآن کا دفاع کرنے والے عالم اسلام کے شجاع و بابصیرت فرزند تھے، شہید ابرہیم رئیسی مظلومین جہان کی توانا آواز تھے جنکی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔تعزیتی بیان میں گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے
رھبر معظم سید علی خامنہ ائ، ملت ایران، عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور شہداء کے خانوادہ کی خدمت میں دلی تعزیت و تسلیت پیش کی۔ اپنے تعزیتی پیغام میں سابق امیدوار برائے صدر پاکستان اصغرعلی مبارک کا کہنا تھا کہ ہم صدمے سے دوچار ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس عظیم صدمے کو برداشت کرنے پر رھبر معظم اور ملت ایران کے لیے دعا گو ہیں، غم کی اس گھڑی میں ہم اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، خدا وند متعال مستضعفین جہان بالخصوص فلسطینی مظلومین کے حامی وناصر کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ واضح رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نےاتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں