سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
عاجزی اور انا میں فرق جان کر جئیں
ہم جسے عاجزی سمجھتے ہیں کیا وہ حقیقی عاجزی ہے؟
یا صرف ایک چھپی ہوئی انا
مصدقہ عاجز انسان کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ اس طرح کا عاجز نہیں ہوتا جس کو ہم صحیح طور پر سمجھ سکیں
ہم سینکڑوں ایسے عاجز اور منکسر لوگوں کو جانتے ہیں اور ان سے واقف ہیں
لیکن کیا اپ جانتے ہیں وہ سب انا پرست ہوتے ہیں
اور ہم اتنے بینا نہیں ہیں کہ ان کی دبی ہوئی انا کو دیکھ سکیں۔
ایک بات قابل غور ہے کہ جھوٹی عاجزی ،محض دبائی ہوئی انا ہوتی ہے ،ہم لوگ جو عاجزی کی اداکاری کرتے ہیں درحقیقت دوسروں سے برتر ہونے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔
حقیقی عاجزی کا انا سے کوئی تعلق نہیں ہے، کوئی سروکار نہیں ہے، یہ تو انا کی عدم موجودگی کا دوسرا نام ہے۔
عاجزی کسی سے برتر ہونے کا دعوی کبھی نہیں کر سکتی کیونکہ نہ ہی کوئی برتر ہے اور نہ ہی کوئی کمتر۔
لوگوں کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ سب منفرد ہیں
سب اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔
آج چونکہ ہمارا موضوع ہے انا اور عاجزی میں فرق لہذا میں آپ کو یہاں ایک مختصر واقعہ سناؤں گا جو عاجزی اور انا کو تفریق کرنے اور سمجھنے میں شاید ہماری کچھ مدد کر سکے۔
میں آپ کو تین راہبوں کا ایک واقعہ سناتا ہوں ان تینوں راہبوں کی خانقاہیں ایک پہاڑ پر آس پاس واقع تھیں
ان کا اکثر آمنا سامنا ہوا کرتا تھا
ایک روز شدید گرمی کے باعث وہ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے تو وقت گزارنے کے لیے کچھ باتیں کرنے لگے
ایک راہب نے کہا کہ یہ درست ہے کہ تم دونوں کی خانقاہوں میں کچھ نہ کچھ ہے۔
تم لوگ کچھ پا لیتے ہو،
دانش حاصل کر لیتے ہو، لیکن جو علم و عرفان ہماری خانقاہوں میں پایا جاتا ہے وہ تمہارے ہاں ممکن نہیں ہے۔
اس پر دوسرا راہب چونکا کہنے لگا،
اب چونکہ تم نے بات کرنے میں پہل کر ہی لی ہے اس لیے میرا جواب دینا بنتا ہے۔
تمہاری خانقاہوں اور عبادت گاہوں میں نفس کشی نہیں ہوتی جبکہ ہماری خانقاہوں میں لوگ نفس خوشی میں بہت آگے ہیں اور ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا کہ زندگی کے حتمی فیصلوں کی ساعتوں میں علم کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتا
بلکہ اچھے اور دیر پا اور آفاقی فیصلے کرنے کے لیے ہمیشہ نفس کشی کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اس پر تیسرا راہب ہنسنے لگا اور گویا ہوا،
تم دونوں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہو لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ ہماری عیسائیت کا حقیقی جوہر عاجزی اور انکساری ہے۔
ہم عاجزی میں تم سب لوگوں سے بہت آگے اور برتر ہیں۔
تو آپ ملاحظہ کیجئے یہ گفتگو ہے خانقاہوں کے راہبوں کی۔
عاجزی اور سب سے برتر ہونا؟
یہ تو دبی ہوئی انا ہے، ایک جنت کا لالچ ہے، بہت بڑا لالچ اور تمام زندگی کی خوشیوں لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے انسان اپنی انا کو دبا رہا ہے اور عاجزی ظاہر کر رہا ہے ۔
درحقیقت ہمیں حقیقی عاجزی کے بارے میں جاننے سے پہلے جعلی اور جھوٹی عاجزی اور انکساری کو سمجھنا ہوگا ۔
جعلی عاجزی کو سمجھیں گے تو حقیقی عاجزی خود بخود ہمارے سامنے آشکار ہو جائے گی ۔
اسے سمجھنے کے لئے ایک اور واقعہ سنیں
ایک مرتبہ ایک نہایت ہی خوبصورت عیسائی مشنری عورت جو کہ نہایت ہی عاجز اور منکسر نظر آتی تھی اور جس کے کندھے آگے کو جھکے ہوئے اور گردن سینے کی طرف ڈھلکی ہوئی اور نظریں زمین پر تھیں ،کسی عالم کے پاس گئی اور انہیں مقدس انجیل کے کچھ پمفلٹس اور کتاب دی۔
یہ عیسائی مشنری عورت بہت ہی عاجز دکھائی دیتی تھی،
انجیل مقدس وصول کرنے کے بعد اس عالم نے مقدس کتاب اس عورت کو واپس دیتے ہوئے کہا کہ انہیں آپ لے جائیں آپ کی انجیل دنیا کی دوسری آسمانی اور الہامی کتابوں میں سے سب سے غیر مقدس کتاب ہے۔
یہ سننا تھا کہ وہ عورت تو پھٹ پڑی، اس نے ڈھیر ساری باتیں اس عالم کو سنائیں۔
اس غصے کے عالم میں وہ مشینری عورت، اپنی ساری عاجزی بھول چکی تھی جس پر اس عالم نے اسے کہا کہ یہ انجیل مقدس یہیں رہنے دو اور پمفلٹس بھی، میں ان سب کو دوبارہ پڑھوں گا کیونکہ میں انہیں پہلے بھی مطالعہ کر چکا ہوں
میں تو صرف تمہیں آزما رہا تھا کہ تم عاجز ہو کہ نہیں؟
اکثر لوگ عاجزی کا متضاد انا یا تکبر سمجھتے ہیں جس طرح دن کا رات، جھوٹ کا سچ، صبح کا شام متضاد ہے۔ اس طرح لوگ انا کا متضاد عاجزی سمجھتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے ۔
انا کا متضاد بھی چھپی ہوئی انا ہے۔
دراصل ہماری آنکھیں علم کی گرد سے اٹی ہوئی ہیں اور ہم نے اپنے ارد گرد سے اپنی آنکھوں کو اندھا کر رکھا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں علم ہماری انا کو بے پناہ توانائی دیتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ علم نہیں رکھتے ۔
عاجز انسان کچھ نہیں جانتا وہ تو معصوم بچے کی طرح ہوتا ہے۔ وہ ہر طرف بھید ہی بھید دیکھتا ہے ۔ساحل سے پتھر اور سیپیاں اکٹھی کرتا ہے اور یوں خوش ہوتا ہے جیسے اسے ہیرے موتی مل گئے ہوں اور پوری دنیا کی دولت اس کے ہاتھ آ گئی ہو۔
جو شخص بے انا ہوتا ہے وہ بے خوف بھی ہوتا ہے۔
بے انا شخص کبھی شرم محسوس نہیں کرے گا۔ اگر ہم اس کے حوالے سے کوئی جھوٹی بات کہیں گے تو اسے رد کر دے گا یا اس کی بیجا تعریف کریں گے تب بھی اسے رد کر دے گا
وہ اپنے متعلق مصدقہ پن میں اپنے آپ کو عیاں کرتا ہے۔
آئیے آخر میں انا کو ختم کرنے اور مارنے کی شعوری کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے ہمارے بہت سارے مسائل خود بخود دم توڑ جائیں۔