هفته,  23 نومبر 2024ء
اسرائیلی جارحیت میں فلسطینیوں کا یوم نکبہ……

تحریر:اصغر علی مبارک

دنیا بھر میں موجود آبائی وطن واپسی کے منتظر فلسطینیوں نے اسرائیلی جارحیت کے سائےمیں یوم النکبہ منایا اور آبائی علاقوں کو لوٹنے کے حق کا مطالبہ کیاواضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم 35 ہزار 233 افراد شہید اور 79 ہزار 141 سے زائد ہوچکے ہیں، شہید اور زخمیوں میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے جبکہ غزہ کے رہائشی علاقوں میں اسرائیل کی بلاتفریق وحشیانہ بمباری سے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جب کہ زیادہ تر آبادی اپنے گھروں سے محروم ہوچکی ہے، جس سے اکثریت کے دل میں دوسرے نکبہ کا خوف پیدا ہوگیا ہے، جس میں ان سب کو جبری طور پر غزہ سے بے دخل کردیا جائے گا صیہونی فوج کے حملوں کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 60 سے زیادہ فلسطینی شہید جبکہ کئی زخمی ہوگئے۔ صیہونی فوج نے غزہ شہر میں شہریوں کے مجمعے پر بھی میزائل برسا دیے جس سے کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے۔

 

اسرائیلی فوج نے غزہ میں حملے بڑھا دیے ہیں، اسرائیلی ٹینکوں، بلڈوزروں اور بکتربند گاڑیوں نے جبالیہ میں بےگھرافراد کے مراکز کا بھی محاصرہ کرلیا جب کہ رفح میں اسرائیلی فوج کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق رفح اور جبالیہ کیمپ کے علاقوں میں اس وقت اسرائیلی فوج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ صیہونی غزہ کے مظلوم شہریوں کیلئے امداد لانے والی گاڑیوں اور ٹرکوں پر بھی حملے کررہے ہیں جب کہ رفح کے قریب واقع یورپین اسپتال کو جنریٹرز کیلئے ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے ہزاروں افراد نے پیر کو فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے ’نکبہ‘ کی 76 برس مکمل ہونے پر مظاہرے کیے۔ فلسطینی اسرائیلی ریاست کے قیام کو ’نکبہ‘ یا ’تباہی‘ قرار دیتے ہیں۔۔ مغربی کنارے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی ہر سال یوم النکبہ پر جلوس کی صورت میں ان دیہاتوں اور قصبوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں سے ان کے اجداد کو 1948 میں بے اسرائیل کے قیام کے ساتھ جبراً بے دخل کردیا کیا تھا۔ فلسطینی اس بے دخلی کو ایک ’بڑے المیے‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور عربی زبان میں ’نکبہ‘ کے معنی بھی یہی ہیں۔

 

 

اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا عمل شروع ہوا اور 1949 تک فلسطین کی 19 لاکھ آبادی میں سے ساڑھے 7 لاکھ آبادی کو ان کے گھروں اور زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا۔ اس دوران صہیونی افواج نے تاریخی فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا اور قابض افواج نے 500 سے زائد دیہاتوں اور قصبوں کو تباہ کردیا اور بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جس میں تقریباً 15 ہزار فلسطینی جاں بحق ہوئے۔اقوام متحدہ کے مطابق 1948ء میں 760,000 سے زائد فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اس واقع کے لیے نکبہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

 

ہر سال 15 مئی کو فلسطینی یوم نکبہ مناتے ہیں۔ اس سال یہ دن ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے نشست والے شہر رملہ میں مظاہرین نے سیاہ بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا ”واپس لوٹو‘‘۔ ان فلسطینی مظاہرین نے پرانی چابیوں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں، جو فلسطینیوں کی طرف سے ان کے اپنے گھروں کی طرف واپسی کے حق کے مطالبے کی علامت ہیں اور فلسطینی اپنے اس حق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 1947ء نومبر کے ماہ میں اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ کے بعد 14 مئی 1948 ء کو ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے ریاست کے قیام کے اعلان کے ایک روز بعد پانچ عرب افواج نے اس نئی ریاست پر حملہ کر دیا۔ اس بارے اسرائیلی این جی او کے مطابق اس بڑے بحران میں 600 سے زیادہ مقامی برادریوں کو اسرائیلی افواج نے گھر بار سے محروم کر دیا تھا۔ تب سے اب تک فلسطینیاس مقبوضہ علاقے میں اپنی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے اسرائیل اب تک رد کرتا آیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت مغربی کنارے، غزہ پٹی، اردن، لبنان اور شام میں 5.9 ملین فلسطینی پناہ گزین مقیم ہیں۔اسرائیل نے اس سال یہودی کیلنڈر کے مطابق 26 اپریل کو اپنا 76 واں یوم آزادی منایا۔ نومبر میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد، اقوام متحدہ نے پہلی بار، نیویارک میں اپنے ہیڈکوارٹر میں ‘نکبہ‘ کی یاد میں تقریب کا انعقاد کیا۔اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی مشق سے متعلقاجلاس میں عربی میں خطاب کیا۔ محمود عباس کا کہنا تھا،”ہم آج سرکاری طور پر بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل ان قراردادوں کا احترام کرے، بہ صورت دیگر اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کر دی جائے۔

 

دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق رفح میں اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی کے آغاز کے بعد اب تک 4 لاکھ سے زائد افراد رفح چھوڑ کر غزہ کے دیگر شہروں اور کیمپوں میں چلے گئے ہیں، یہ تمام شہری بے سروسامانی کی حالت میں ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہےکہ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 35 ہزا سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی حملوں کا ردعمل میں فلسطینی مزاحمت کاروں جی جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ رفح اور شمالی غزہ پر چڑھائی کرنے والی اسرائیلی فوج کی فلسطینی مزاحمت کاروں سے شدید جھڑپوں کے دوران القسام بریگیڈ نے رفح میں اسرائیلی ٹینکوں پر ڈرامائی حملے کی وڈیو جاری کردی۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹینک کے نیچے بارودی سرنگ نصب کر کے اور راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ ادھر جنوبی لبنانی علاقے پر اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کا سینیئر کمانڈر شہید ہوگیا۔ حزب اللہ نے جوابی حملے میں اسرائیل کے میرون فوجی اڈے پر درجنوں راکٹ برسا دیے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے بھی بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہاز پر کامیاب میزائل حملے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب آئرلینڈ رواں ماہ فلسطین کو ریاست تسلیم کر لے گا جبکہ سلووینیا اور اسپین کا بھی رواں ماہ ہی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ ہے۔

 

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے بتایا کہ یو این کی جانب سے جنوبی شہر رفح میں ایک گاڑی پر نامعلوم حملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے، جس میں 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ میں بین الاقوامی عملے کا پہلا رکن ہلاک ہوا۔ دوسری جانب غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے خلاف نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں واقع اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ نئی درخواست پر دو روزہ سماعت جمعرات سولہ مئی کو شروع ہوئی۔اقوام متحدہ کی اس اعلیٰ ترین عدالت میں یہ سماعت آج جمعہ سترہ مئی تک جاری رہے گی اور اس میں جنوبی افریقہ نے درخواست کی ہے کہ اسرائیل کو مجبور کیا جائے کہ وہ سات ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری غزہ کی جنگ میں تباہ شدہ فلسطینی علاقے غزہ پٹی کے مصر کے ساتھ سرحد کے قریب واقع جنوبی شہر رفح میں اپنی فوج کی طرف سے کیا جانے والا زمینی آپریشن روک دے۔‘غزہ کی ساحلی پٹی پہلےایک بہت گنجان آباد علاقہ تھا مگر سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں حملے کے ساتھ شروع ہونے والی حماس اور اسرائیل کی جنگ میں اب تک اس خطے کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نقل مکانی کے بعد رفح میں پناہ گزین ہو چکا ہے۔ رفح شہر میں پناہ لینے والے بے گھر فلسطینیوں کی تعداد غزہ پٹی کی مجموعی آبادی کے نصف سے بھی زیادہ بنتی ہے۔بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے جنوبی افریقہ کی دائر کردہ جس درخواست کی سماعت شروع کی ہے، وہ اب تک اس افریقی ملک کی طرف سے غزہ کی جنگ کے پس منظر میں آئی سی جے میں دائر کی جانے والی چوتھی درخواست ہے۔جنوبی افریقہ کا الزام ہے کہ اسرائیلی فوج حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پٹی میں جو عسکری کارروائیاں کر رہی ہے، وہ فلسطینیوں کی ”نسل کشی‘‘ کے مترادف ہیں۔دی ہیگ کی عدالت کے سربراہ نواف سلام نے جب عدالتی کارروائی کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا، تو اس کے بعد درخواست دہندہ ملک کی طرف سے یہ وضاحت کر دی گئی کہ یہ تازہ اور مجموعی طور پر چوتھی درخواست اس لیے دائر کی گئی ہے کہ اسی عدالت کے گزشتہ سماعتوں کے بعد سنائے جانے والے ابتدائی احکامات اس پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں کہ ”غزہ میں عام شہریوں کی آخری پناہ گاہ پر کیے جانے والے ظالمانہ فوجی حملے‘‘ کو رکوایا جا سکے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پٹی کا جنوبی شہر رفح عسکریت پسندوں کا آخری گڑھ بن چکا ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت اس بارے میں اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے کی جانے والی اپیلوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے امریکہ اور برطانیہ جیسے قریب ترین اتحادی ممالک اور یورپی یونین کی تنبیہات کو نظر انداز کرتی آ رہی ہے کہ رفح میں فوجی آپریشن وہاں پناہ گزین لاکھوں فلسطینی شہریوں کے لیے ”تباہ کن نتائج‘‘ کا سبب بنے گا۔

 

 

جنوبی افریقہ نے اپنی درخواست میں بین الاقوامی عدالت سے اپیل کی ہے کہ اسرائیل کو حکم دیا جائے کہ وہ رفح سے اپنے فوجی دستے واپس بلائے اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کے حکام، انسانی بنیادوں پر امدادی خدمات انجام دینے والی تنظیموں اور صحافیوں کو غزہ پٹی تک کسی بھی رکاوٹ کے بغیر مکمل رسائی دی جائے۔ جنوبی افریقہ نے آئی سی جے سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسرائیل کو یہ حکم بھی دیا جائے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر بتائے کہ اس نے اس عالمی عدالت کے احکامات پر کس حد تک عمل کیا ہے۔غزہ کی جنگ کے حوالے سے اسی عدالت میں سال رواں کے دوران ہونے والی گزشتہ سماعتوں میں اسرائیل نے اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کی تھی کہ وہ غزہ میں کسی ”نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔تب ساتھ ہی اسرائیل نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کر رہا ہے اور اس کی عسکری کارروائیوں کا ہدف صرف حماس کے عسکریت پسند ہیں۔ اسرائیل میں حماس کے حملے کے علاوہ اس جنگ غزہ پٹی کا تقریباﹰ سارا ہی علاقہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جبکہ اس خطے کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے نصف سے کہیں زیادہ بے گھر بھی ہو چکی ہے۔غزہ میں کافی عرصے سے ایک بڑا انسانی بحران بھی پیدا ہو چکا ہے، جس دوران لاکھوں انسانوں کو اشیائے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی شدید ترین قلت کا سامنا ہے اور غزہ کے باہر سے ان تک بمشکل پہنچنے والی اشد ضروری امداد بھی انتہائی ناکافی ہے۔غزہ میں کافی عرصے سے ایک بڑا انسانی بحران بھی پیدا ہو چکا ہے، جس دوران لاکھوں انسانوں کو اشیائے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی شدید ترین قلت کا سامنا ہے اور غزہ کے باہر سے ان تک بمشکل پہنچنے والی اشد ضروری امداد بھی انتہائی ناکافی ہے۔فلسطینیوں نے 1948 میں ہونے والی تباہی کی یاد میں گزشتہ روز یوم نکبہ منایا، اس دن اسرائیلی ریاست کے قیام کے موقع لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کردیا گیا تھا۔

 

یوم نکبہ گزشتہ 76 سالوں سے فلسطینیوں کے لیے ایک واضح تجربہ رہا ہے جو ان کی قومی شناخت کو تشکیل دینے میں ان کی مدد کرتا ہے اور دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ تلخ تعلقات کی یاد دلاتا ہے۔ رواں سال اس دن کی یاد میں غزہ میں تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کی حالت زار کا غلبہ رہا جن میں اکثریت گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیلی بربریت کے باعث اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد عارضی پناہ گاہوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ 1948 میں نکبہ والے دن بچ جانے والے 80 سالہ ام محمد کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے اس دن سے بڑی کوئی آفت نہیں ہوسکتی، غزہ آنے سے پہلے میں نے اپنے زندگی کا زیادہ عرصہ جنوبی قصبے بیرشیبہ میں گزرا اور اب جنوبی شہر رفح میں ایک خیمے میں رہائش پذیر ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میں تقریباً 80 سال سے یہاں ہوں لیکن ایسی تباہی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی جس میں ہمارے گھر چلے گئے، ہمارے بچے، ہماری جائیدادیں، زمینیں تک چلی گئیں، یہاں تک کہ ہمارا سونا اور آمدنی بھی محفوظ نہیں رہی، اب ہمارے پاس رونے کے لیے کیا رہ گیا ہے، کچھ بھی تو نہیں بچا۔

مزید خبریں