کسی مسلمان کا قرآن کی تلاوت کا شوق رکھنا، ایک سعادت اور نیکی ہے،
مومن جب نیک کام کی نیت کرتا ہے تو اُس کی نیت صادق اور صالح ہوتی ہے، جبکہ عمل میں کبھی کوتاہی بھی ہوجاتی ہے یا کوئی خامی بھی رہ جاتی ہے اور منافق کا عمل نیت سے بہتر ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی نیت تو اپنی اصل کے اعتبار سے فاسد ہوتی ہے، لیکن دکھاوے کے لیے بعض اوقات بظاہر عمل درست ہوتا ہے۔
(1) قرآنِ مجید (یعنی مُصحَفِ مقدّس ) کو وضو اور طہارت کے بغیر چھونا منع ہے، البتہ بے وضو زبانی تلاوت کرنا اگرچہ خلافِ مستحب اور خلافِ اَولیٰ ہے، لیکن جائز ہے۔
موبائل یا لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر چونکہ قرآنی کلماتِ مبارکہ کے نقوش ثبت نہیں ہوتے، یہ محض سوفٹ ویئر ہوتا ہے، لہٰذا سوفٹ ویئر پر قرآنِ کریم کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ اگر سوفٹ ویئر پر تلاوت کرتے ہوئے ورق پلٹنا پڑے تو سافٹ ویئر کے جس حصے میں آیات نظر آرہی ہیں، اُس حصے کو نہ چھوئیں، اطراف سے چھو کر ورق پلٹیں۔
جیسا کہ سطورِ بالا میں درج کیا ہے: افضل تو یہ ہے کہ باوضو اور باطہارت تلاوت کی جائے، لیکن بے وضو زبانی یا اسکرین پر تلاوت کرنا خلافِ مستحب اور خلافِ اَولیٰ ہے، مگر جائز ہے۔
بعض اوقات انسان سفر کے دوران فلائٹ میں ہوتا ہے اور کئی حضرات اسکرین پر تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، ممکن ہے وہ باوضو نہ ہوں، بہرحال یہ جائز ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ حتی الامکان باوضو تلاوت کی جائے۔
(2) خواتین کے لیے ایامِ مخصوص میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا اور قرآنِ کریم کو چھونا بھی منع ہے، البتہ اگر کسی بلند جگہ سے اٹھا کر پڑھنے کے لیے بچے کو دینا ہے، تو کسی پاک کپڑے میں پکڑ کر دے سکتی ہیں۔
بعض قرآنی آیات دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہیں، جیسے:(۱) رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار،(البقرہ:201) (۲)رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلاَۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآء oرَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ، (ابراہیم:40-41) ایسے کلماتِ قرآنی کو تلاوت کی نیت سے نہیں پڑھ سکتیں، البتہ دعا کی نیت سے پڑھ سکتی ہیں۔