اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)سینئرصحافی آصف بشیر چوہدری نے وفاقی دارلحکومت میں تعینات بیوروکریٹ کو ایمانداری پرملنے والی سزا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پرتمام ترتفصیلات اور حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایماندارلوگوں کے ساتھ یہ حال کیا جا رہا ہے تو آپ سوچ لیں کون اس ملک کی خدمت کے لیے آگے آئےگا۔
سینیئر صحافی آصف بشیر چوہدری نے ایک وفاقی سیکرٹری کی مختلف عہدوں پر سروسز کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود تمغہ امتیاز ہیں اور وفاقی اور صوبائی سطح پر مختلف محکموں میں کام کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن ) نے ان سے بھرپور استفادہ حاصل کیا ۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں نندی پور میں مینیجنگ ڈائریکٹر لگایا گیا جہاں پر انہوں نے بھرپور محنت کی،حالانکہ ان کے راستے میں روڑے بھی اٹکائے گئے، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور سکریپ کے ذریعے 100 میگا واٹ بجلی پیدا کی، نندی پور کے حوالے سے بابر اعوان نے فائل کو کئی ماہ تک اپنے پاس روکے رکھا ،اس کے باوجود انہوں نے جتنی دستیاب سہولیات تھیں اس کو بروئے کار لا کر ملکی مفاد میں اپنا کام جاری رکھا تا ہم بعد میں ان پر اس منصوبے سے پیسے کھانے کے الزامات لگائے گئے اور ان پر مختلف کیسز بنائے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ، اس پر کام کرنے والے کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود اور ان پر بنائے جانے والے کیسز لمز میں بطور مضمون آج پڑھائے جا رہے ہیں۔
آصف بشیر چوہدری نے کہا کہ اس کے بعد انہیں لاہور میں پاکستان ہارٹیکلچر اتھارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ وہاں پر انہوں نے بہت محنت کی اور شہر کو خوبصورت اور مثالی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔محنتی آفیسر سے اس وقت کی پنجاب حکومت نے بھرپور استفادہ کیا۔
سینیئر صحافی نے بتایا کہ اس کے بعد انہیں لاہور میں ایک اور بڑا عہدہ دے دیا گیا۔کیپٹن(ر) محمد محمود نے رنگ روڈ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ رنگ روڈ منصوبہ عوامی فلاح و بہبود کا ایک شاہکار منصوبہ تھا جس کی لاگت اس وقت 60 ارب روپے تھی جس میں سے 20 ارب حکومت نے ادا کرنے تھے جبکہ باقی کے 40 ارب مختلف صنعتی زونز اور ایجوکیشنل زونز نے ادا کرنے تھے،مگر بدقسمتی سے اس وقت احتساب بیورو کے مشیربرائے وزیراعظم شہزاد اکبر نے ان پر اس منصوبے میں پیسے کھانے کا الزام لگا کر ان پر کیس بنا دیا اور انہیں عدالت سے سزا ہو گئی تاہم پانچ ماہ سزا کاٹنے کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود باعزت طور پر عدالت سے بری ہو گئے جس کے بعد آج وہی منصوبہ تقریبا 100 ارب روپے کا ہو چکا ہے اور تمام ادائیگی صرف اور صرف حکومت نے کرنی ہے بلکہ یہ منصوبہ 100 ارب سے بھی زائد کا ہو جائے گا اوردلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ اب دو سے تین ماہ ہو گئے ہیں بند پڑا ہے اور اس پر کوئی کام بھی نہیں ہورہا، یہ تمام معاملات بھی اس وقت سول سروسز اکیڈمی میں نصاب کا حصہ بن چکے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ اس کے بعد انہیں وفاقی سیکرٹری خوراک لگایا گیا جہاں پر یہ کام کرتے رہے،انہوں نے گندم جو ہر سال باہر سے منگوائی جاتی ہے اس کی ایک تجویز حکومت کو بھجوائی تھی لیکن اس وقت کی کابینہ نے وہ تجویز مسترد کر دی تھی اور پانچ جنوری 2024 کو ان کو تبادلہ کر دیا گیا تھا اس کے بعد آنے والی حکومت نے نے تمام گندم منگوائی، اس میں کیپٹن ریٹائر محمد محمود کا دور دورتک کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اب ان کو گندم سکینڈل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں نیک نیتی اور ایمانداری سے کام کرنے والے افیسر کے ساتھ یہ حال کیا جا رہا ہے تو آپ سوچ لیں کون اس ملک کی خدمت کے لیے آگے آئے گا۔