تحریر: علی شیر خان محسود
جو شخص یا گروہ پاکستان کے آج کا موازنہ 1971 کے حالات و واقعات سے کر رہاہے۔ جسکو یہ محسوس ہو رہا ہوںکہ پھر اس جیسے سانحے کا ایک بار پھر سے پاکستانی عوام کو سامنا کرنا پڑیگا یا پڑ سکتا ہے۔ تو انکو نہ تو پاکستان کے جغرافیائی اور تاریخی حالات اور پاکستانی عوام کے مشترکہ مزاج سے واقف ہیں۔ سوائے چند ایک دشمن کے پیسوں پر پلنے والے برساتی مینڈکوں کے ۔ جو کبھی کبھار برسات کےموسم میں کسی جوھڑ میں غل غپاڑہ کرکےشور بپا کئے رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو اب نعرے بازوں، اور سہانے خواب دکھانے والوں کو بخوبی اندازہ ہوچکا ہے۔ جو سوشل میڈیا پر زبانی کلامی دعوں اور جھوٹ کے بنیاد پر ہوائی قلعے کھڑے کرتے ہیں ۔جنکا حقیقت اور زمینی شواہد سے دور کا بھی کوئ رشتہ نہیں ہوتا۔ البتہ بیرونی پاکستان دشمن قوتوں اور اندرونی دشمن نما جغادروں اگرچہ پوری طرح پاکستان کے ساتھ مل حرامی کا حق ادا کیا۔ جنکو پاکستانی عوام اور سرزمین سے عزت و دولت ملی لیکن وہ پھر بھی آستین کے سانپ کی طرح نہ کسی کےہوتے ہیںاور نہ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ انکے خمیر، ضمیر اور خون کو اللہ تعالیٰ نے وفاداری کے عنصر سے محروم رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر محب وطن لوگوں اور ذمہ دار اداروں کو کھڑی نظر رکھنے کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔ جنکے شیطانی کرتوتوں اور چالوں کو وقت پر دفن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آقاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہونے پہلے ہی انجام کو پہنچ جائیں۔ جس میں زیادہ کردار بیرون ملک بیٹھے ہوئے ان لوگوں کا ہے جنکو اسلام اور پاکستان سے ازلی دشمنی ہے۔ کیونکہ انھوں نے پہلے پہل اسلام پر وار کرکے بنیادی اسلامی عقائد میں سے ختم نبوت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جو آج بھی پاکستان کی سر زمیں پر قادیانی کی صورت میں موجود ہے۔ جنکو بیرونی آقا اور انکے برگشتہ بھی خواہ کروڑوں روپے کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ اور پاکستان میں فسادی اور انتشاری ذہنیت کا کھلم کھلا استعمال معاشرے میں ھر فورم پر کر ر ہے ہیں۔ جنکو قادیانی کہا جا تاہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی بے۔ کہ ایسے ملک و اسلام دشمن عناصر سے با خبر رہنے کے ساتھ ساتھ انکے پاکستان و اسلام دشمن منصوبوں کو مستقل طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ تاکہ پاکستان ہمیشہ کیلئے خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن کر آنے والی نسلوں کو منتقل کیا جا سکے۔