هفته,  06 دسمبر 2025ء
عبدالستار ایدھی: فرد سے ادارے تک کا سفر

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کی سماجی اور خدمت خلق کے شعبے میں چند ہی نام ایسے ہیں جو کسی عہد کی علامت بن جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی انہی شخصیات میں شامل ہیں۔ وہ نہ صرف ایک فرد تھے بلکہ ایک رویہ، ایک فکر اور ایک فلاحی تحریک کا نام بھی تھے۔
ایدھی کا تعلق برطانوی ہندوستان کے گجرات کے میمن گھرانے سے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں تجارت، مذہب اور خدمتِ خلق کا ایک مخصوص امتزاج میمن برادری کی تمیز سمجھا جاتا تھا۔ تقسیمِ ہند نے لاکھوں لوگوں کو اجاڑ دیا۔ اسی اضطراب میں ایک نوجوان ایدھی بھی کراچی پہنچے۔ ہجرت کا کرب اور انسانوں کو بے یار و مددگار دیکھ کر ان کے اندر وہ فلاحی احساس بیدار ہوا جس نے بعد میں پورے ملک کو بدل کر رکھ دیا۔
اس پس منظر سے پتہ چلتا ہے کہ ایدھی کی خدمتِ خلق کسی سرکاری منصب یا مذہبی ادارے کی پیداوار نہیں تھی۔ یہ ایک ذاتی تجربے سے جنم لینے والا انسانی درد تھا۔
1957کی ایشیائی فلو کی وبا ایدھی کے لیے فیصلہ کن موڑ تھی۔ پاکستان کے پاس ریاستی سطح پر اتنے وسائل نہ تھے کہ اس ہنگامی صورت حال کو سنبھال سکے۔ ایسے میں ایک عام انسان نے سڑک پر بیٹھ کر لوگوں کی مدد شروع کی۔ یہی وہ عمل تھا جس نے پہلی ایمبولینس، پہلے ڈسپنسری اور پھر بڑے فلاحی نیٹ ورک کی بنیاد رکھی۔
ایدھی کا اندازِ قیادت روایتی نہیں تھا۔ وہ خود کفالت، سادگی اور جواب دہی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے دفتر، گاڑی یا پروٹوکول نہیں اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شفافیت پر کبھی انگلی نہیں اٹھی۔ پاکستان جیسے معاشرے میں یہ بات غیر معمولی ہے کہ ایک اتنا بڑا ادارہ مکمل طور پر عوامی عطیات سے چلتا ہو اور اس کے کارناموں کی سچائی پر کوئی اختلاف نہ ہو۔
آج ایدھی فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس چلا رہی ہے۔ یہ وہ شناخت ہے جو کئی دہائیوں پر محیط مستقل مزاجی کا ثمر ہے۔
ایدھی کے فلاحی کام کو بلقیس ایدھی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے بے سہارا بچوں، نومولود کی گود لینے کے نظام، خواتین کے شیلٹرز اور زچگی مراکز میں وہ کردار ادا کیا جس نے اس تحریک کو انسانی سطح پر مضبوط بنایا۔
پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ناجائز بچے مار دیے جاتے تھے، وہاں بلقیس ایدھی نے “جھولا” رکھ کر ایک نئی روایت قائم کی یعنی زندگی کو بچانے کی روایت۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست نے ہمیشہ فلاحی کاموں کے لیے نجی شعبے کا سہارا لیا۔ لیکن ایدھی نے ریاست کا متبادل نہیں، ریاست کی کوتاہیوں کی نشاندہی کی۔ وہ مذہبی انتہا پسندی کے مخالف تھے مگر مذہب دشمن نہیں تھے۔ ان کا ایمان عمل تھا، قول نہیں۔ اسی اصولی موقف نے انہیں معاشرے میں ایک اخلاقی اتھارٹی بنا دیا۔
ایدھی کی کامیابی کا راز “غیر سیاسی خدمت” تھا۔ انہوں نے کسی جماعت، فرقے یا طبقے کو ترجیح نہیں دی۔ یہی آفاقیت انہیں دوسرے فلاحی کارکنوں سے ممتاز کرتی ہے۔
ایدھی نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں امدادی کام کیے۔ ایتھوپیا کے قحط زدہ علاقے ہوں یا امریکہ میں طوفانِ کیٹرینا، انہوں نے خدمت کی سرحد کبھی پاکستان تک محدود نہیں رکھی۔ اسی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر انہیں متعدد اعزازات ملے۔
نوبیل انعام نہ ملنا ایک الگ بحث ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا مقام اس سے بڑا تھا۔ انہیں دنیا نے ایک ایسے انسان کے طور پر یاد رکھا جو کسی نظریے، کسی قومیت، کسی مذہب کی قید میں نہیں تھا۔
ایدھی صرف خدمت گزارک ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک ضدی، جرات مند اور اصول پسند شخص بھی تھے۔ وہ کرپٹ مذہبی تنظیموں، مسلکی اداروں اور سیاسی مفادات پر مبنی فلاحی پراجیکٹس کے کھلے ناقد تھے۔
ان کا لباس، ان کی جھونپڑی، ان کی دو جوڑی کپڑے یہ سب علامتیں تھیں کہ فلاحی کام دولت سے نہیں، نیت سے ہوتا ہے۔
ایدھی کے انتقال کے بعد یہ سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے کہ کیا ایک ایسی شخصیت دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے؟ کیا ایدھی فاؤنڈیشن اپنی اصل روح برقرار رکھ سکتی ہے؟
تاریخی تجربے میں یہ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ بڑے ادارے اکثر بانی کے بعد کمزور ہوتے ہیں۔ تاہم ایدھی فاؤنڈیشن تاحال فعال ہے، مگر اس کے سامنے معاشی اور سماجی چیلنج موجود ہیں۔
ایدھی کے انتقال نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستانی معاشرے میں ان کے درجے کی کوئی متبادل اخلاقی قیادت موجود نہیں۔عبدالستار ایدھی نے پاکستانی معاشرے کو دکھایا کہ خدمت حکومت کی محتاج نہیں ہوتی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ایک فرد نیت اور مسلسل جدوجہد سے پورا نظام بدل سکتا ہے۔ تاریخی، اخلاقی اور سماجی سطح پر ایدھی ایک ایسا باب ہیں جسے پاکستان کی اجتماعی تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ورثہ صرف ادارے کی صورت نہیں بلکہ ایک فکری پیغام کی شکل میں موجود ہے۔ انسان کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے۔ اللہ کریم عبدالستار ایدھی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

مزید خبریں