تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کے وفاقی و صوبائی تعلقات ہمیشہ سے آئینی پیچیدگیوں اور سیاسی اختلافات کا شکار رہے ہیں۔ خصوصاً جب کوئی صوبہ مرکز میں موجود حکومت سے مختلف سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتا ہو تو اختیارات کے استعمال، عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور آئینی مشاورت کے حوالے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی کا یہ تازہ اقدام یعنی عدالتِ عالیہ اسلام آباد کو توہینِ عدالت کیس کے لیے خط لکھنا اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
یہ معاملہ دراصل اس وقت پیدا ہوا جب عدالتِ عالیہ اسلام آباد نے وزیراعلیٰ کو پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے کا حکم دیا۔ تاہم جیل انتظامیہ نے اس عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جس کے بعد وزیراعلیٰ نے آئینی راستہ اپناتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے 29 اکتوبر 2025 کو ایک باضابطہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کے نام ارسال کیا ہے جس میں 23 اکتوبر 2025 کو جاری ہونے والے عدالتی حکم نامے کی تصدیق شدہ کاپی فوری فراہمی کی استدعا کی گئی ہے۔ اس خط میں واضح کیا گیا کہ عدالت نے وزیراعلیٰ کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی تھی، لیکن جیل انتظامیہ نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی۔
وزیراعلیٰ نے خط میں یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پہلے بھی ایک انٹرا کورٹ اپیل میں اسی نوعیت کے عدالتی احکامات کو نظرانداز کیا گیا تھا جو عدلیہ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ خط کے آخر میں توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 189 اور 190 کے تحت عدالتِ عالیہ کے احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کے لیے لازم ہے۔ اگر کوئی ادارہ یا فرد عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتا ہے، تو یہ نہ صرف قانون کی حکمرانی کے اصول کی خلاف ورزی ہے بلکہ عدلیہ کی حرمت کو بھی متاثر کرتا ہے۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ مؤقف آئینی بنیادوں پر مضبوط دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت اپنی جماعت کے بانی سے مشاورت کے پابند ہیں، خاص طور پر جب حکومتی پالیسی سازی یا سیاسی مشاورت کی ضرورت ہو۔
یہ واقعہ پاکستان میں جاری ادارہ جاتی کشمکش کی ایک واضح مثال ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان توازنِ اختیارات کا تصور جب عملی طور پر بگڑتا ہے تو اس کے اثرات پورے نظام پر پڑتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ملاقات نہ ہونا صرف ایک انتظامی کوتاہی ہی نہیں بلکہ ایک سنگین آئینی سوال بھی ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ وزیراعلیٰ نے معاملے کو سیاسی یا جذباتی انداز میں پیش کرنے کے بجائے قانونی اور آئینی طریقہ اختیار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا یہ طرزِ عمل ایک مثبت مثال کے طور پر سامنے آیا ہے جو قانون کی حکمرانی اور عدالتی احترام پر مبنی سیاسی کلچر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ قابلِ تنقید پہلو جیل انتظامیہ کی عدالتی حکم عدولی ہے۔ اگر واقعی عدالتی حکم موجود تھا اور اس کے باوجود ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو یہ توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
دوسری طرف، عدالتی حکم کی تصدیق شدہ کاپی کی عدم فراہمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ عدالتی نظام کی شفافیت اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب فیصلے کی نقل متعلقہ فریقین کو بروقت مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے قانونی حقوق کا دفاع کر سکیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ اقدام عدالتی و آئینی عملداری کو مضبوط کرنے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن سکتا ہے۔ اگر عدالت اس معاملے میں سخت مؤقف اپناتی ہے تو مستقبل میں عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے ادارے یا افراد محتاط رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے نظام کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
جیل انتظامیہ اور وزارتِ داخلہ کے درمیان واضح رابطے کا میکنزم بنایا جائے تاکہ ایسے معاملات میں ابہام نہ رہے۔
عدلیہ تصدیق شدہ فیصلے بروقت جاری کرے تاکہ فریقین آئینی تقاضے پورے کر سکیں۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی کا عدالت کو لکھا گیا خط محض ایک رسمی کارروائی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں عدالتی بالادستی کے تصور کو عملی طور پر اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام اس بات کا اعلان ہے کہ اختیارات کی تقسیم صرف کتابوں میں نہیں بلکہ عمل میں بھی نظر آنی چاہیے۔











