تحریر: داؤد درانی
سیاست دراصل ضد اور ہٹ دھرمی کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم اور موقع کی مناسبت سے فیصلے کرنے کا کھیل ہے۔ جو سیاستدان حالات کو سمجھ کر وقت کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی اختیار کرتا ہے، وہی طویل عرصے تک میدان میں قائم رہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی حالیہ سیاست میں یہ خوبی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے، خاص طور پر عمران خان کی سیاسی سوچ میں اس کی واضح کمی نظر آتی ہے۔ جیل میں ان سے ملاقات کرنے والے چند لوگ، جن میں ان کی بہنیں بھی شامل ہیں، انہیں یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام آج بھی ان پر کٹ مرنے کو تیار ہیں اور اگر وہ محض ایک اشارہ کریں تو کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ لیکن یہ خوش فہمی زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔
9 مئی کے واقعات نے تحریک انصاف کی تحریک میں سے انقلابی جذبہ عملاً ختم کر دیا ہے۔ اب عوام میں وہ تیاری اور ہمت نہیں رہی کہ وہ ریاست سے براہِ راست ٹکر لینے پر آمادہ ہوں۔ عوام اب احتجاج تو کر سکتے ہیں، مگر ایسی حد تک نہیں جائیں گے کہ ریاستی اداروں سے تصادم مول لیں۔ کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے نہ صرف عوامی جذبہ بلکہ دلیر، عملی اور دور اندیش قیادت بھی ضروری ہوتی ہے، جو اس وقت تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی مثال سامنے ہے۔ وہ بارہا یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ صرف بیان بازی کے ماہر ہیں لیکن عملی اقدامات میں وہ اپنے بلند و بانگ دعوؤں پر پورا نہیں اترتے۔ سیاست میں صرف بلند جملے اور دھمکیاں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ عملی منصوبہ بندی اور لچکدار حکمت عملی ناگزیر ہوتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اپنے عروج پر تھے تو عوامی مقبولیت کی انتہا پر پہنچ چکے تھے۔ جب انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا اور بحیرۂ عرب خون سے سرخ ہو جائے گا۔ لیکن تاریخ نے دیکھا کہ بھٹو جیسے مقبول رہنما کی پھانسی کے روز پیپلز پارٹی کا کوئی جیالا سڑک پر نہ نکلا۔ بھٹو کو خاموشی سے تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا، اور عوام کی محبت کے باوجود کوئی عوامی مزاحمت نہ ہو سکی۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ عوامی مقبولیت ہمیشہ عملی مزاحمت میں نہیں بدلتی۔
عمران خان کے لیے بھی یہی حقیقت سمجھنا ضروری ہے۔ ضد اور سخت بیانیہ انہیں جیل سے رہائی نہیں دلا سکتا۔ سیاست میں لچک دکھانا، مذاکرات کی راہ اختیار کرنا، اور موقع کے مطابق فیصلے کرنا ہی وہ راستہ ہے جو ان کے لیے آگے کا راستہ کھول سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں واپسی کی ایک اور بڑی مثال شریف خاندان کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب شریف خاندان کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی اور دس سال کے لیے پاکستان سے باہر جانا پڑا تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ ایک دہائی سیاست سے باہر رہنا کسی بھی رہنما کے لیے بہت بڑا نقصان سمجھا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ نے دیکھا کہ وہی شریف خاندان 2013 میں دوبارہ اقتدار میں آ گیا اور آج تک سیاسی منظرنامے میں ایک مضبوط کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ مثالیں عمران خان کے لیے سبق آموز ہیں۔ سیاست میں وقتی پسپائی ناکامی نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات یہ طویل المدتی کامیابی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اگر عمران خان ضد چھوڑ کر حالات کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی پالیسی میں لچک پیدا کریں تو نہ صرف وہ جیل سے رہائی پا سکتے ہیں بلکہ اپنی جماعت کو دوبارہ فعال سیاسی قوت بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کا کھیل ہمیشہ بدلتے حالات اور طاقت کے توازن پر منحصر رہا ہے۔ جو سیاستدان وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے، وہی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ ضد اور غیر لچکدار رویہ وقتی مقبولیت تو دلا سکتا ہے، مگر طویل المدتی کامیابی کے لیے حقیقت پسندی، لچک، اور موقع شناسی ناگزیر ہے۔