تحریر: داؤد درانی
اس سال موسم سرما میں پاکستان میں نوے فیصد بارشیں کم ہوئیں جس کی وجہ سے ملک میں جو گنے چنے آبی ذخائر ہیں اس میں پانی تشویشناک حد تک کم ہوگیا تھا اسی طرح طویل خشک سالی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہونا شروع ہو گئی تھی ۔
دو بڑے ڈیموں میں تو پھر بھی پانی کو ضرورت کے حساب سے ریگولیٹ کیا جا رہا تھا لیکن چھوٹے ابی ذخائر مثلاً خانپور ڈیم ، راول ڈیم ، سملی ڈیم ، منچھر جھیل اور کھینجر جھیل وغیرہ جہاں سے شہروں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے پانی بالکل سوکھنے لگا تھا۔ دریائے سندھ میں سندھ کے علاقے میں ریت اڑ رہی تھی اور جب دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں پانی کا بہاؤ بہت کمزور ہو جاتا ہے تو سمندر کا کھارا پانی بیک لیش کرتا ہے اور دریا میں آکر زرعی زمینوں کو برباد کرتا ہے کیونکہ جب کسی زرعی زمین پر ایک مرتبہ بھی سمندر کا پانی آجاتا ہے تو وہ زمین بیس ، تیس سال تک زراعت کے قابل نہیں رہتی اور بنجر ہو جاتی ہے ۔
اور پہلی مرتبہ صوبہ سندھ کے لوگوں نے پانی کے ایشو پر بہت بڑے مظاہرے کیے جس میں سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ملکی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے بھی شرکت کی ۔ گو کہ سندھی عوام اپنے مطالبے میں حق بجانب تھے لیکن طویل خشک سالی کی وجہ سے نہ تو دریائوں میں پانی آرہا تھا اور نہ ہی محض دو بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا میں اتنا پانی تھا کہ اسے دریا میں بہا کر سندھیوں کا مطالبہ پورا کیا جاتا ۔
لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مون سون شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان میں بارشوں کے سلسلے کا آغاز ہوگیا اور اب باقاعدہ برسات کے موسم میں عام حالات سے اتنی ذیادہ بارشیں شروع ہو گئی ہیں کہ پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب میں جگہ جگہ دریائوں میں طغیانی کے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ملک میں پانی کے ذخائر تیزی سے بھر رہے ہیں ۔ دو دن قبل تربیلا ڈیم کے سپل ویز کو کھول دیا گیا تھا جس کا یہ مطلب ہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ اپنی مقررہ مقدار تک پہنچ چکا ہے ۔اسی طرح ان بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی مناسب حد تک بلند ہوئی ہے ۔ برساتی نالوں اور برساتی دریائوں میں سارا سال پانی بہت کم ہوتا ہے ان میں بھی پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور چھوٹے بڑے شہروں میں فلیش فلڈز بھی ا رہے ہیں ۔
لیکن دکھ کی بات یہ ہے مون سون کی بارشوں کا یہ سلسلہ اگست تک ختم ہو جائے گا اور پھر جنوری تک موسم ذیادہ تر خشک ہی رہے گا لیکن اس وقت دریاؤں اور برساتی نالوں میں لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نظر ہو رہا ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ پچاس سال قبل ہم منگلا اور تربیلا ڈیم بنا کر اطمینان سے بیٹھ گئے ہیں اور ان ڈیموں میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ جب دریا سے ڈیم میں پانی آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ سلٹ بھی لاتا ہے جس سے ڈیم سلٹ سے بھرنے کی وجہ سے پانی کم ذخیرہ کرتا ہے ۔ ہمارے پاس چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کے وسیع مواقع موجود ہیں لیکن ہم کیوں بنائیں ہمارے حکمران جب آپس کی لڑائیوں سے فارغ ہونگے تو تب ہی انہیں عوامی مسائل سے آگاہی ہوگی ۔
پھوٹوہار کے علاقے میں قدرتی طور پر ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں بڑی آسانی سے چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں اور برسات کے موسم میں برساتی دریائوں مثلاً کورنگ ، ہرو اور سواں وغیرہ میں اتنا پانی آتا ہے کہ اس سے یہ ڈیم بہ آسانی بھر سکتے ہیں اور پھر اس پانی کو اکتوبر ، نومبر کے مہینوں میں بارانی علاقوں میں زرعی مقاصد کے لیے وافر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے مگر منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ لاکھوں کیوسک پانی دریائوں میں بہہ کر سمندر میں جا رہا ہے ۔
بھاشا ڈیم ہمارے لیے ایک خواب بن چکا ہے جس کی تعبیر ہماری زندگیوں میں تو ممکن دکھائی نہیں دے رہی اسی طرح پختونخوا میں ایک چھوٹا ڈیم منڈا ڈیم کے نام سے بن رہا ہے( جس کو اب غالباً مہمند ڈیم کا نام دیا گیا ہے) لیکن عرصہ بیت گیا اس کی تعمیر بھی کچھوے کی رفتار سے چل رہی ہے ۔
اس وقت ملک کے طول عرض میں طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں اور بہت بڑی مقدار میں قیمتی میٹھا پانی لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچا رہا لیکن کسی کے کام نہیں آرہا لیکن دو ، تین ماہ بعد سندھ اور پنجاب کے کاشتکار پانی کو ترسیں گے اور شہری علاقوں میں پانی کی سپلائی کم ہونے لگے گی اور حکومت پانی کی ایمرجنسی لگا کر پانی کے ذائد استعمال پر سزائیں تجویز کرے گی لیکن یہ کبھی نہیں سوچے گی کہ ملک میں پانی کے ذخائر کی تعداد میں فوری طور پر اضافے کے لیے کیوں نہ اقدامات کیے جائیں ۔ پانی ایمر جینسی کی بجائے اگر اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ایمرجنسی لگائی جائے تو ذیادہ بہتر ہوگا کیونکہ وہ وقت دور نہیں جب صوبہ سندھ کے لوگ پانی کی کمی سے تنگ آکر اپنے پنجابی بھائیوں سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے جو پاکستان کی وحدت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے اور پاکستان کے وجود کے دشمن اس سے پوری طرح سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت بلوچستان میں دہشت گردی کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی بھی بڑی وجہ یہ ہی ہے کہ علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کا حق انہیں نہیں دیا جا رہا اس لیے وہ بندوق اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔
سابقہ مشرقی پاکستان کی طرح بھارت بلوچستان کے مسئلے سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ہر قسم کی امداد فراہم کرکے پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے لہذا ہمارے حکمران اپنے دشمنوں کو کیوں ایسے مواقع فراہم کر رہے ہیں کہ جس سے وہ فائدہ اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہیں ۔