سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
اس نے کہا
میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہو گیا۔
زندگی تباہ ہو گئی
کچھ نہ بچا
جب جوانی تھی تو عقل نہ تھی
جب عقل آئی تو جوانی جا چکی تھی
یہ دھوکہ یقینا اور بھی کئی لوگوں کے ساتھ ،بلکہ کروڑوں لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے ۔
جی نہیں میں محبت کے دھوکے کی بات نہیں کر رہا۔
محبت میں تو کم و بیش ہم سب، لگ بھگ دو چار دفعہ دھوکہ کھاتے ہی ہیں، لیکن میں نظریاتی دھوکے کی بات کر رہا ہوں۔
جی ہاں ایسی فلاسفی، ایسے نظریات ،جو بچپن سے ہمارے ذہنوں میں ڈال دیے گئے اور جو شعوری طور پر ہمیں فلموں میں ،ڈراموں میں اور کتابوں میں پڑھائے اور دکھائے جاتے رہے
اور وہ دھوکہ ہے
دنیاوی زندگی کا دھوکہ۔
ہمیں بچپن میں بارہا کتابوں میں پڑھایا گیا
اقوال زریں میں بتایا گیا کہ یہ دنیا ایک دھوکہ ہے
یہ دنیا ایک مردار ہے اور انسان ایک کتا ہے
اولیاء کرام کی کرامات اور ایسے بیانات جن میں کہا جاتا تھا کہ دولت ہاتھ سے گرتی ہے جبکہ انسان ہاتھ تھامتا ہے پڑھ پڑھ کر ہم جوان ہوئے۔
ذہن پختہ ہو چکا تھا کہ دولت کی کوئی اہمیت نہیں۔
دولت رشتوں میں ،بہن بھائیوں میں! دوستیوں میں دراڑیں ڈالتی ہے ۔
دولت سے خوشی نہیں مل سکتی ۔دھن کسی کے کام نہ آیا
اور بزرگان دین نے تو ایک ایسا بیان داغ دیا جو کہ نہایت ہی احمقانہ تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے اسے اپنے پلو سے باندھ لیا اور وہ یہ تھا کہ
کفن میں جیب نہیں ہوتی۔ فرعون /نمرود/ شداد اور بادشاہ کہاں کچھ قبر میں ساتھ لے کر گئے ہیں؟
تو یہ تھے وہ نظریات/ وہ مذہبی دھوکہ جن کا ذمہ دار میں صرف بزرگان دین اور اولیاء کرام کو سمجھتا ہوں کیونکہ اس قسم کی بے وقوفانہ اور بیہودہ باتیں ان کی کتابوں میں تحریر ہیں۔
جب شعور آیا ،جوانی آئی قران کا ترجمہ پڑھنے کا موقع ملا تو اس کی صرف دو ہی آیات نے سارا عقدہ کھول دیا اور وہ یہ تھی کہ
جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ خسارے میں ہے ۔
اب آپ ملاحظہ کیجیے کہ آپ کا آج ،علمی طور پر، روحانی طور پر، مالی طور پر، سماجی طور پر اپنے گزرے کل سے بہتر ہونا چاہیے۔ اس کی شہادت اللہ تعالی قران میں فرما رہے ہیں اور ایک اور جگہ اللہ نے کہا ہے کہ
مو من کی یہ دنیا بھی اچھی اور آخرت میں بھی اس کے لیے انعامات۔
تو ثابت ہوا کہ اللہ تعالی ایمان والوں کو اور مومنوں کو دنیا اور آخرت کی خوشحالی کی نوید دے رہے ہیں
جبکہ یہ بات آپ کو کبھی کوئی مولوی، کبھی کوئی عالم دین نہیں بتائے گا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ انسان کے حالات اچھے ہوں۔
جب مسلمان کو روحانی طور پر، علمی طور پر، مادی طور پر ترقی ملے گی تو پھر وہ کیوں ان مولویوں اور مکار عالموں کے پاس جا کے تقدیر کا حال جانیں گے؟
یا پیروں کے پاس جا کے دعائیں کروائیں گے ؟
اس لیے میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ آج بھی وقت ہے آپ لوگ سمجھ جاؤ ۔
نوجوانوں/ بچوں تمہیں آج بھی بہت سارے لوگ کہیں گے
جا بجا کہیں گے کہ
چھوڑو ،دفع کرو، دولت سے کوئی روحانی خوشی نہیں ملتی
نہ ہی مادی خوشی ملتی ہے۔ دھن بالکل بیکار چیز ہے۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا لوگوں کو کہتے ہوئے کہ
ہم نے دولت نہیں کمائی لیکن عزت کمائی ہے۔
کیا خاک ٹکے کی عزت کمائی ہے تم نے؟
تمہیں تو کوئی بنیا، دس روپے کا دھنیا ادھار نہیں دیتا۔ تم کہتے ہو کہ تم نے دولت نہیں عزت کمائی ہے۔
میں آپ کو ایک اور بات بتاؤں
انسان اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ انسان امیر یا غریب ہوتا ہے۔ یاد رکھنا
میں یہ دوبارہ کہتا ہوں کوئی انسان اچھا یا برا نہیں ہوتا
انسان صرف غریب یا امیر ہوتا ہے
کیونکہ اگر آپ امیر ہیں تو آپ کی برائیاں بھی لوگوں کو اچھائی لگیں گی خواہ آپ کتنے ہی برے انسان کیوں نہ ہوں
اور اگر آپ غریب ہیں تو بے شک آپ نیکوکار ہیں ،اچھی ہدایات دینے والے ہیں ،لوگوں کے کام آنے والے ہیں لیکن چونکہ آپ غریب ہیں اس لیے آپ کی اچھائیاں بھی لوگوں کو نظر نہیں آئیں گی ۔
آپ لوگوں نے کبھی غور کیا کہ جب آپ کوئی مووی دیکھتے ہیں تو اس میں جو ولن ہے وہ ایک بہت بڑے بنگلے میں رہ رہا ہے
لمبے سائز کا سگار پیتا ہے بڑی سی گاڑی میں پھرتا ہے وہ ولن ہے
جبکہ ہیرو جو ہوگا وہ کسی کار گیرج میں مکینک ہوگا
کہیں خانسامہ ہوگا
کہیں قلی ہوگا اور گیت گا رہا ہوگا
ساری دنیا کا بوجھ ہم اٹھاتے ہیں
دیکھیے کس طرح آپ کی نفسیات پر حملہ کیا گیا ہے۔ غیر شعوری طور پر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو امیر لوگ ہیں
جو بڑی گاڑی میں پھر رہے ہیں
وہ تو ولن ہیں
تو ہم چونکہ غریب ہیں اس لیے لوگوں کی ہمارے ساتھ ہمدردیاں ہیں
یہ ایک نہایت غلط تصور ہے جو اس سامراجی نظام میں ہمیں دے دیا گیا ہے
ہمارے ذہنوں میں گھسا دیا گیا ہے
فلم سازوں نے ایسی فلمیں بنائیں جس میں امیر انسان کو برا اور غریب کو بہت ہی اچھا دکھایا گیا ہے
اس طرح کے دھوکے ،دوسرے مذاہب نے بھی اپنے پیروکاروں کو دیے ہیں
صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہندوؤں نے عیسائیوں نے بھی اپنے لوگوں کو اس قسم کے عذابوں میں مبتلا رکھا۔
عیسائی کہاں کرتے تھے کہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر سکتا ہے لیکن کوئی امیر آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ میں نے یہ بات خود پڑھی تھی اور اس کے بعد میں بہت مطمئن ہو گیا تھا کہ میں جنت میں جاؤں گا اور امیر لوگ جہنم میں۔
دیکھیں کتنی زندگی گزارنے کے بعد گیان ہوا کہ 90 فیصد نظریات مذہبی مفاد پرستوں کی لالچ، اولیاے کرام کی بدنیتی کی وجہ سے رائج کیے گئے۔
میں نے کہا تھا نا کہ ہم لوگوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہو گیا
اور یہ ایسا دھوکہ ہے جس کی کوئی بھرپائی نہیں ہے۔ اس کا کوئی اوپائے، کوئی علاج نہیں ہوتا کیونکہ یہ مذہبی دھوکا انسان کی زندگی لے لیتا ہے لیکن انسان اس پر قابو نہیں پا سکتا۔
آپ کو محبت میں دھوکہ ہو جائے آپ آئندہ کے لیے محتاط ہو جاتے ہیں۔ کاروبار میں دھوکہ ہو جائے تو آپ اس سے تجربہ لیتے ہیں اور آئندہ کے لیے آپ کے نقصانات کا احتمال کم ہوتا ہے
لیکن یہ مذہب کے نظریات میں دھوکا جان لیوا بیماری ہے
مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں پانچ فرائض کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ نماز ؟روزہ ۔حج؟ زکوۃ اور کلمہ۔
تو کلمہ پڑھنے میں ہمیں کون سی تکلیف ہوتی ہے۔
نماز میں ہمارا کیا جاتا ہے جبکہ حج اور زکوۃ کے لیے آپ کو صاحب ثروت ہونا ضروری ہے۔ آپ کے پاس دولت ہوگی تو آپ یہ اسلام کے فرائض ادا کر سکیں گے اور اگر آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو پھر آپ کسی یتیم کی پرورش نہیں کریں گے۔ آپ کسی غریب لڑکی کا جہیز بنا کر نہیں دے سکتے اور کسی بچے کو سکول میں نہیں پڑھا سکتے۔
آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو آپ کسی کی مالی مدد نہیں کر سکتے بلکہ خود ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہوں گے
پیسہ کماؤ دوستوں
پیسہ کماؤ
سائکل پر رونے سے بہتر ہے کہ
انسان مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر رولے