اتوار,  22 جون 2025ء
ایران: تہذیبوں کی سرزمین سے جنگ کے دہانے تک

تحریر: وقار نسیم وامق

جب تاریخ کی کتابیں کھلتی ہیں، تو ایران کا نام سنہری حروف میں لکھا نظر آتا ہے۔ ایک ایسی سرزمین جو کبھی فارس کی سلطنت تھی جہاں سائرس اعظم نے انسانی حقوق کا پہلا منشور لکھا اور جہاں پرسیپولس کی دیواروں پر تہذیبوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

ایران کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ زرتشتی مذہب سے لے کر اسلامی انقلاب تک ایران نے ہر دور میں دنیا کو حیران کیا۔ 1979 کا اسلامی انقلاب ایک ایسا موڑ تھا جس نے ایران کو بادشاہت سے نکال کر ایک مذہبی جمہوریت میں تبدیل کر دیا۔ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران نے مغرب خاص طور پر امریکہ سے فاصلہ اختیار کیا اور ایک نئی نظریاتی شناخت اپنائی۔

ایران کی سیاست ہمیشہ داخلی اور خارجی دباؤ کے درمیان جھولتی رہی ہے۔ ایک طرف عوامی خواہشات، دوسری طرف مذہبی قیادت کا کنٹرول، اصلاح پسند اور قدامت پسند قوتوں کے درمیان کشمکش نے ایران کو ایک مسلسل سیاسی تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایران نے ہمیشہ خودمختاری اور مزاحمت کی پالیسی اپنائی ہے خاص طور پر اسرائیل کے حوالے سے اس کا موقف واضح اور دوٹوک ہے۔

13 جون 2025 کو جب اسرائیل نے ایران کے جوہری اور عسکری مراکز پر اچانک حملہ کیا تو دنیا ایک نئے بحران میں داخل ہو گئی۔ ایران نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کی اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں نہ صرف عسکری تنصیبات نشانہ بن رہی ہیں بلکہ عام شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

اسرائیل نے ایران کے کئی اعلیٰ فوجی اور انٹیلیجنس افسران کو نشانہ بنایا جبکہ ایران نے تل ابیب، حیفا اور دیگر اسرائیلی شہروں پر میزائل داغے۔ اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کو ایک بار پھر آگ کی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عالمی طاقتیں اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تہران کی گلیوں میں ایک بوڑھا مورخ کہتا ہے کہ ہم نے سائرس کی رواداری دیکھی، خمینی کی انقلابی گرج سنی اور اب ہم ایک ایسی جنگ کے گواہ ہیں جو شاید تہذیبوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

ایران آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی عظیم تاریخ، پیچیدہ سیاست اور موجودہ جنگی صورتحال ایک نیا بیانیہ تشکیل دے رہی ہیں۔ یہ بیانیہ نہ صرف ایران کے قومی شعور کو جگا رہا ہے بلکہ اسے اپنی نظریاتی خودمختاری، سفارتی تدبر اور تہذیبی ورثے کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے۔

قارئینِ کرام، جب کوئی قوم اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر، سیاست میں بصیرت اور جنگ میں تدبر سے کام لیتی ہے تو وہ نہ صرف بحران کا سامنا کر سکتی ہے بلکہ ایک مضبوط اور پرامن مستقبل کی راہ بھی ہموار کر سکتی ہے۔

مزید خبریں